1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عروج و زوال اور پروگریس

19 مارچ 2023

تاریخ میں قومیں اور تہذیبیں عروج و زوال اور پروگریس کے ذریعے تبدیلیوں سے گزرتی ہیں۔ عروج و زوال کا تعلق کسی ایک قوم یا تہذیب سے ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Otuv
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

مورخ ان وجوہات کو تلاش کرتے ہیں کہ جو قوموں اور تہذیبوں میں توانائی کا جذبہ پیدا کرتی ہیں جو مرحلہ وار سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر ان میں اتحاد پیدا کر کے علم و ادب، آرٹ، موسیقی اور تعمیرات سے ان کی ذہنی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک مرحلے پر پہنچ کر جب قومیں عروج حاصل کر لیتی ہیں تو ان میں زوال کے آثار پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تاریخ میں گمنام ہو جاتی ہیں۔ عروج و زوال کا یہ ڈرامہ رومی سلطنت، ایرانی و عرب طاقتوں کے ساتھ بھی ہوا۔ ہندوستان میں موریا، گپتا اور مغل سلطنتوں کا بھی زوال ہوا۔ موجودہ دور میں مورخ اور فلسفی یورپ اور امریکہ کو بھی زوال پذیر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

پروگریس کا نظریہ اٹھارویں صدی میں یورپ کے مفکرین نے پیش کیا تھا۔ اس نظریے کی مدد سے مورخین نے انسانی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے تین ادوار میں تقسیم کر دیا۔ قدیم عہد، عہد وسطیٰ اور دور جدید ان تینوں ادوار میں مرحلہ وار جو تبدیلیاں آئی تھیں ان کی مدد سے پروگریس کو دیکھا گیا۔ عروج و زوال کے مقابلے میں پروگریس کی تاریخ کو انسانی تاریخ کے تناظر میں لکھا گیا کہ انسان نے کس طرح مرحلے وار ترقی کی اور جدید دور تک پہنچا۔ انسان کی تاریخ کو دو مختلف نظریات کی روشنی میں دیکھا گیا۔ ایک یہ تھا کہ قدیم ماضی میں انسان سنہری دور میں رہ رہا تھا، جس میں امن و امان تھا، خوشحالی تھی، مساوات تھی، سکون اور اطمینان تھا۔ لیکن انسان اس سے دور ہوتا چلا گیا اور جتنا دور ہوتا گیا اسی قدر سنہری دور کو واپس لانے کی خواہش کرتا رہا۔ یہ جنت گم گشتہ کی تلاش تھی، تاکہ سنہری دور کو دریافت کیا جا سکے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ قدیم ماضی کا انسان وحشی اور جاہل تھا۔ لیکن اس نے پروگریس کے مختلف مراحل طے کئے اور پتھر کے زمانے سے زراعتی اور شہری زندگی میں داخل ہوکر قدم بہ قدم تبدیلیوں سے گزرتا ہوا دور جدید تک آیا۔ اس کی اس مرحلے وار ترقی سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان نے تخلیقی صلاحیتیں اور ان کے ذریعے تبدیلی کی خواہش اسے آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔

پروگریس کا یہ نظریہ یورپ کے تناظر میں پیدا ہوا اور اس کی مدد سے مورخین نے یورپ کی تاریخ کا ارتقائی طور پر جائزہ لیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یورپ کی تہذیب میں پروگریس ہوئی اور غیر یورپی ممالک اس سے محروم رہے۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ یورپی تہذیب متحرک وتوانا ہے اور اس میں مرحلے وار ترقی ہو رہی ہے، جبکہ ایشیا اور افریقہ کی عوام ایک جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں اور ان میں ترقی کے جذبات موجود نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی ترقی یافتہ ملکوں نے اپنے سامراجی عزائم کو پورا کرنے کے لیے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں پر قبضہ کیا تھا اور اب بھی وہ ان ملکوں پر سیاسی تسلط کو قائم  رکھے ہوئے ہیں۔

یورپ اور امریکہ کے بہت سے مفکرین اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اگرچہ یورپی تہذیب نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کر لی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ادب، فلسفہ، آرٹ اور دوسرے سماجی علوم میں ترقی نہ ہونے کے باعث یورپی معاشرے بنجر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں یورپ کی سوسائٹی میں کسی فلسفی، مفکر، ناول نگار، شاعر اور آرٹ کے ماہرین نظر نہیں آتے۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا یہ پروگریس عروج کی علامت ہے یا زوال کی۔ ان حالات میں اگر مغربی تہذیب کو اختیار کیا جائے تو اس کے لیے غیر یورپی ممالک کو ٹیکنالوجی نظر آتی ہے۔ جسے وہ ترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، لیکن ٹیکنالوجی جس کا تعلق کلچر سے نہیں ہوتا ہے، اس کا استعمال ذہنی پسماندگی کا باعث بن جاتا ہے۔ کیونکہ جب تک سماجی علوم اس کے ساتھ نہ ہوں تو سوسائٹی مادی اور معاشی طور پر تو ترقی کر سکتی ہے مگر اس میں اخلاقی قدریں اور انسانیت کا جذبہ موجود نہیں ہوتا۔

اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پروگریس کے نظریے نے جنت گم گشتہ کو تلاش کر لیا ہے اور سنہری دور کو واپس لے آیا ہے یا اس نظریے نے یورپ کو ٹیکنالوجی کی طاقت دے کر غیر یورپی ملکوں پر ان کے تسلط کو قائم کر دیا ہے۔

 

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔