1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عزیر بلوچ فوج کی تحویل میں لیکن معاملہ ’ظاہر سے مختلف‘

13 اپریل 2017

لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کے خلاف ملک سے غداری اور حساس معلومات دشمن ممالک کی ایجنسیز کو فراہم کرنے کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا۔ اُدھر زرداری کے تین قریبی ساتھی لاپتہ بھی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2bD0a
Pakistan - Uzair Baloch
عزیر بلوچ کی ایک برس کی حراست کے دوران پولیس ایک بھی الزام میں اسے سزا نہیں دلوا سکی۔ دو مقدمات میں عزیر عدالت سے بری ہوگیا جبکہ تین مقدمات کو خود پولیس نے ختم کردیاتصویر: picture-alliance/dpa/R. Khan

ماضی میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے قریب رہنے والے عزیر بلوچ کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی پراسرار طور پر گمشدہ ہیں۔ مبصرین ان دونوں معاملات کو انتخابی سیاست کی پیش بندی قرار دیتے ہیں۔

بدنام زمانہ جرائم پیشہ، رحمان ڈکیت کا مقامی ٹرانسپورٹر دوست، فیض محمد ماما جب ارشد پپو کے گینگ کے ہاتھوں قتل ہوا تو اس کا بیٹا عزیر جان بلوچ رحمان کے گینگ میں شامل ہوا اور 2010 میں رحمان کی موت کے بعد گینگ کا سرغنہ بن گیا۔ سردار بننے سے قبل عزیز کے خلاف صرف تین مقدمات درج تھے جبکہ گزشتہ چھ برس میں اس کے خلاف مزید 54 مقدمات درج ہوئے جو تمام کے تمام سنگین نوعیت کے ہیں۔ لیکن عزیر بلوچ کی ایک برس کی حراست کے دوران پولیس ایک بھی الزام میں اسے سزا نہیں دلوا سکی۔ دو مقدمات میں عزیر عدالت سے بری ہوگیا جبکہ تین مقدمات کو خود پولیس نے ختم کردیا۔

Asif Zardari Präsident Pakistan auf Nato-Gipfel in Chicago 2012
عزیر بلوچ کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی پراسرار طور پر گمشدہ ہیںتصویر: Reuters

گیارہ اپریل کی رات جب پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے سوشل میڈیا پر عزیر کو فوج کی جانب سے تحویل میں لینے اور اس کے خلاف غداری اور دشمن ملکوں کی ایجنسیز کے لیے کام کرنے کا الزام عائد کیا گیا تو مقامی میڈیا میں جیسے بھونچال آگیا۔ سینیئر صحافی کے آر فاروقی کہتے ہیں، ’’عزیر بلوچ کا مقدمہ تو فوجی عدالت میں جانا ہی تھا اور جب مقدمہ فوجی عدالت میں زیر سماعت ہو تو ملزم طریقہ کار کے مطابق فوج کی تحویل ہی رہتا ہے۔ نئی بات صرف عائد کیا جانے والا الزام ہے کیونکہ عزیر کے خلاف درج مقدمات میں سے اس نوعیت کا پہلے کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ لیکن اس معاملے میں صرف بھارتی خفیہ ادارے ہی نہیں بلکہ ایرانی ایجنسیز کا کردار بھی سامنے آئے گا۔ کڑیاں مل رہی ہیں کہ بھارت صرف افغانستان کے ذریعے نہیں بلکہ ایران کے ذریعے بھی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں ملوث ہے۔ کلبھوشن یادیو ایران سے پاکستان آیا اور ایران کے ذریعے ہی عزیر بھی ملک دشمنوں کے لیے کام کر رہا تھا۔ یہ معاملہ تحقیق طلب بھی ہے اور راست اقدام کا طالب بھی۔‘‘

Pakistan - Uzair Baloch
عزیر بلوچ کی ایک برس کی حراست کے دوران پولیس ایک بھی الزام میں اسے سزا نہیں دلوا سکی۔ دو مقدمات میں عزیر عدالت سے بری ہوگیا جبکہ تین مقدمات کو خود پولیس نے ختم کردیاتصویر: picture-alliance/dpa/S. Rangers

سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والے مبصرین کہتے ہیں کہ عزیر کے خلاف نئے اور انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات کا اس وقت عائد ہونا اور سابق صدر آصف علی زرداری کے تین قریبی ساتھیوں اشفاق لغاری، نواب لغاری اور قادر بخش مری کا اچانک لاپتہ  ہو جانا اس تاثر کو جنم دے رہا ہے کہ معاملہ جو دکھائی دے رہا ہے وہ ہے نہیں۔ عزیر دو ہزار تیرہ تک پیپلز پارٹی کی آنکھ کا تارا تھا، وزیر اعلٰی قائم علی شاہ اور آصف زرداری کی بہن فریال تالپور سمیت پارٹی کے کئی سرکردہ رہنما عزیر سے ملا کرتے تھے لیکن اب صرف ذوالفقار مرزا عزیز کو بھائی کہتے ہیں۔ ان مبصرین کے مطابق لاتعلقی سے جان بخشی تو ہونے والی نہیں اور عزیر جس جس کا جب جب نام لے گا اس کی حاضری تو ضرور ہوگی۔

مگر پیپلز پارٹی کے کراچی سے سینیٹر سعید غنی کہتے ہیں، ’’عزیر کا مقدمہ فوجی عدالت میں منتقل کرنے سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ مقدمہ سندھ حکومت کی سفارش پر ہی منتقل کیا گیا ہے۔ البتہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو اس سے ضرور پریشانی ہوسکتی ہے۔‘‘