طالبان کی واپسی کی خبریں: کئی حلقے تشویش کا شکار
12 اگست 2022ناقدین کا خیال ہے کہ ان کی واپسی سے ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے اور ممکنہ طور پر پاکستان کے سکیورٹی مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم کچھ سیاسی جماعتیں ٹی ٹی پی سے مزاکرات کی حامی بھی نظر آتی ہیں۔
واضح رہے کہ اس موجودگی پر کل قومی اسمبلی میں بھی کچھ اراکین نے تشویش کا اظہار کیا اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسمبلی میں اس بات کا اعتراف کیا کہ خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں لوگ ان کی موجودگی کے خلاف مظاہرہ کر رہے۔ خواجہ آصف نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بگڑ رہی ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ یہ صوبائی نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے۔
ملک کے سوشل میڈیا میں ایسی خبریں آرہی ہیں کہ عسکریت پسند لوگوں سے بھتا وصول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں پی ٹی آئی کے ایک ایم پی اے پر حملے کو بھی اسی بھتے کی کہانی سے جوڑا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور پاکستانی حکام کے درمیان مذاکرات پر پاکستان کے سیکولر اور پختون قوم پرست حلقے کچھ وقت سے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ مذاکرات کے سلسلے میں پاکستان سے علماء اور قبائلی عمائدین کے وفود کابل بھی گئے تھے، جہاں انہوں نے ٹی تی پی کے قائدین سے ملاقاتیں کیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ان مذاکرات میں معاونت افغان طالبان کر رہے ہیں۔ ان مزاکرات میں ٹی ٹی پی کا ایک اہم مطالبہ سابقہ فاٹا کی حیثیت کو بحال کرانے کا ہے، جس پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ لیکن ان کے مطالبات سے زیادہ اب ان کی موجودگی کئی حلقوں میں زیر بحث ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی کی ایک بار پھر موجودگی ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم حکومت یہ بات واضح کر چکی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہوگا جو خلاف آئین ہو۔
حکومت نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی گروپ کو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی کسی مسلح گروپ کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
’عوام خوف میں مبتلا ہیں‘
پشاور سے تعلق رکھنے والے پختون دانشور ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ طالبان کی آمد کی خبروں نے عوام کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہمارے لوگوں کو اس بات کا ڈر ہے کہ ایک بار پھر پختون بیلٹ میں آگ و خون کا دریا گرم کیا جا سکتا ہے۔ ایک بار پھر امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگا اور طالبان لوگوں کو کو ٹارگٹ کریں گے۔‘‘
ڈاکٹر سید عالم محسود کے مطابق انہیں بتایا گیا تھا کہ ان لوگوں کو ختم کر دیا گیا ہے لیکن اب سوات مالاکنڈ اور دوسرے علاقوں میں انہیں واپس لایا جارہا ہے۔
سخت کارروائی ہونی چاہیے
کئی ناقدین کا خیال ہے کی ماضی میں بھی حکومتوں نے طالبان سے مختلف معاہدے کر کے انہیں مضبوط ہونے کا موقع دیا، جس کے بعد انہوں نے ریاستی رٹ کو چیلنج کیا اور ہزاروں پاکستانیوں کو ہلاک کیا۔ ملک کو ان کی عسکریت پسندی کی وجہ سے سخت مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا، جس کا تخمیہ سینکڑوں ڈالرز میں ہے۔
سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ اگر ان کے خلاف بر وقت کارروائی نہیں کی گئی تو حالات سوات جیسے ہوجائیں گے۔ ''ہمارا مطالبہ ہے کہ ان سے مزاکرات بند کئے جائیں۔ ان کے کلاف فوری کارروائی کی جائے ورنہ وقت گزر جائے گا اور اس کا نقصان عوام کو ہوگا۔‘‘
طالبان ہمارے علاقوں میں آچکے ہیں
واضح رہے کہ طالبان عسکریت پسندی کے حوالے سے خیبرپختونخواہ اور سابقہ قبائلی علاقوں کے تقریبا تمام حصے متاثر ہوئے تھے لیکن سب سے زیادہ مالاکنڈ ڈویژن متاثر ہوا تھا، جہاں طالبان نے نہ صرف ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تھا بلکہ وہاں پر ایک متوازی حکومت بھی قائم کر لی تھی۔ دوہزار آٹھ کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت نے ان سے معاہدہ کیا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکا اور وہاں آپریشن کیا گیا۔
سوات کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی کارکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' طالبان ہمارے پہاڑی علاقوں میں آچکے ہیں۔ جب پولیس وہاں پہنچی تو انہوں نے پولیس پر فائرنگ کی اور انہیں زخمی بھی کیا۔‘‘
اس سیاسی کارکن کا کہنا تھا کہ طالبان کہتے ہیں کہ ان کے بڑوں کے مذاکرات حکومت پاکستان سے ہو رہے ہیں اور ان کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں چلے جائیں اور جا کر اپنے گھروں پر رہیں۔ اس سیاسی کارکن نے دعویٰ کیا کہ جب طالبان سے کہا گیا کہ وہ پہاڑوں کے بجائے اپنے گھروں میں جاکر رہیں، تو انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
رویہ بدلا ہوا ہے
اس سیاسی کارکن کا کہنا تھا کہ فی الحال طالبان عسکریت پسندوں کا، جو سوات میں آئے ہیں، رویہ بدلا ہوا ہے۔ ''وہ پولیس اور فوج کو اپنی پولیس اور فوج کہہ رہے ہیں۔ ان عسکریت پسندوں نے ابھی تک عام آدمی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ وہ اپنے پہاڑی علاقوں تک محدود ہیں۔‘‘
خیبرپختونخوا کے کئی علاقوں میں طالبان کی موجودگی کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ سوات میں 17 اگست کو ایک قومی جرگہ ہو رہا ہے جبکہ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں اس طرح کے جرگے منعقد کئے جارہے ہیں۔
مزاکرات ہونے چاہیے
تاہم کچھ سیاسی جماعتیں ٹی ٹی پی سے مزاکرات کی حامی بھی ہیں۔ جمیعت علما اسلام کے رہنما اور مرکزی شوریٰ کے رکن محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں عسکریت پسند تنظیموں سے مزاکرات ہوتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''امریکہ نے افغان طالبان سے مزاکرات کیے۔ برطانیہ نے آئرش ریپبلیکن آرمی سے مزاکرات کیے۔ تو ٹی ٹی پی سے بھی مزاکرات ہوسکتے ہیں۔ تاہم یہ آئین میں دی جانی والی حدود کے اندر ہونے چاہیے۔‘‘