عفرین کارروائی کے مخالف درجنوں ترک افراد گرفتار
23 جنوری 2018ترکی میں دو برس قبل ناکام فوجی بغاوت کے بعد اس سلسلے میں رجب طیب ایردوآن کی انتظامیہ ہزاروں افراد کو گرفتار کر چکی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ایک ایسے ہی تازہ کریک ڈاؤن کے نتیجے میں مزید درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ’دہشت گردی کے لیے پراپیگنڈے‘ میں ملوث ہیں۔ یہ افراد دراصل شام میں ترک افواج کی کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں شامل ہیں۔
نیا موڑ، ترک افواج شام میں داخل ہو ہی گئیں
شام میں ترک فوج کا زمینی آپریشن شروع، عفرین کے بعد منبج بھی
ترکی کرد جنگجوؤں کے حوالے سے امریکی ضمانت پر مطمئن نہیں
ان گرفتار شدہ افراد میں جرمن اخبار ’ٹاگس سائٹنگ‘ سے منسلک ترک اخبار Tay Gazete کے دو صحافی بھی شامل ہیں۔ ٹاگس سائٹنگ نے منگل کو بتایا کہ ان دونوں صحافیوں کو انسداد دہشت گردی پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور ان کے گھروں کی تلاشی بھی لی گئی ہے۔اس اخبار کے مطابق ان صحافیوں نے شامی علاقے عفرین میں ترک فوج کی کارروائی کے خلاف آواز بلند کی۔
ٹاگس سائٹنگ کی طرف سے کی گئی ایک ٹوئیٹ میں کہا گیا ہے کہ انقرہ میں ان صحافیوں کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور تلاشی لی گئی۔ مزید لکھا گیا ہے کہ ایک صحافی کو استنبول اور دوسرے کو وان میں گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ صحافی ایک ایسے آن لائن مباحثے کے میزبان تھے، جو شام میں ترک افواج کے عسکری آپریشن کے خلاف ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس مباحثے میں انسانی حقوق کے کئی کارکنان اور کچھ قانون دان بھی شامل ہیں۔
Tay Gazete سے وابستہ ایک صحافی Celikkan نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عفرین جنگ کے خلاف آواز اٹھانے والے درجنوں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’یہ اس بڑی مہم کا حصہ نظر آتا ہے، جس کے تحت امن کی بات کرنے والوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن ان کی تعداد کم ازکم بھی پچاس بنتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ہر کسی کو خطرہ ہے کہ اگلی باری اس کی ہے۔‘‘
دوسری طرف ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ ملکی فوج شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف اپنی فوجی کارروائی کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ ترک فورسز عفرین میں امریکی حمایت یافتہ کرد فائٹرز YPG کے خلاف کارروائی کر رہی ہیں تاہم اسے جواب میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ انقرہ کا کہنا ہے کہ یہ جنگجو کالعدم کردستان ورکز پارٹی سے وابستہ ہیں، جس سے ترکی کی سالمیت کو خطرات لاحق ہیں۔ YPG کا کہنا ہے کہ اس کا ترک کرد علیحدگی پسندوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یہ کرد باغی شامی جنگ میں نیٹو رکن ملک امریکا کے اہم اتحادی ہیں، جو اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
دمشق حکومت سمیت امریکا، فرانس اور متعدد مغربی ممالک نے شام میں ترک فوج کی اس عسکری کارروائی پر شدید تحظات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم انقرہ کا کہنا ہے کہ وہ روسی، امریکی یا شامی فورسز کے ساتھ براہ راست کوئی جھڑپ نہیں چاہتا۔ اگرچہ دمشق حکومت پہلے بھی الزام عائد کر چکی ہے کہ ترک بری افواج نے شامی سرحدوں کی خلاف ورزی کی تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ترک حکومت نے اعلانیہ کہا ہے کہ اس کے فوجی شام میں داخل ہوئے ہیں۔ ترک وزیر اعظم کے مطابق اس کارروائی کا مقصد کرد باغیوں کو ترک سرحد سے تیس کلو میٹر تک دور دھکیلنا ہے تاکہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر ایک سکیورٹی زون قائم کیا جا سکے۔