علی کی جرمنی حوالگی پر بغداد کی برہمی
14 جون 2018عراقی حکومت نے جرمنی کی وفاقی پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ جرمن لڑکی کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث عراقی کرد علی کو جرمنی لے جانا قانونی نہیں تھا۔ بغداد حکومت نے اس حوالے سے برلن اور نیم خود مختار عراقی علاقے کردستان کی حکومتوں سے برہمی کا اظہار کیا ہے۔
گزشتہ ماہ اسی عراقی لڑکے نے مبینہ طور پر ویزباڈن میں بطور مہاجر اپنے قیام کے دوران ایک چودہ سالہ لڑکی کو ہلاک کر دیا تھا۔ بعد ازاں یہ بیس سالہ ملزم اپنی کبنے کے ساتھ واپس عراق فرار ہو گیا تھا تاہم جرمنی کی طرف سے اس کا بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری کیے جانے کے بعد کرد انتظامیہ نے اسے گرفتار کر لیا تھا۔
عراقی میڈیا کے مطابق علی نامی اس ملزم نے دوران تفتیش اقبال جرم بھی کیا تھا۔ اب اس ملزم کو جرمنی کے حوالے کیا جا چکا ہے، جہاں اس کے خلاف باقاعدہ قانونی کارروائی کی جا ری ہے۔
یاد رہے کہ عراق اور جرمنی کے مابین ملزموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ اس تناظر میں بغداد کا کہنا ہے کہ جرمنی نے کرد حکومت کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت علی کو جرمنی بلوایا ہے اور اس حوالے سے ملزم کی جرمنی حوالگی کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
عراقی حکومت کی اس تنقید کے ردعمل میں جرمن وزارت خارجہ نے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ صرف اتنا ہی کہا گیا ہے کہ انہیں بغداد حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی باقاعدہ شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔
دوسری طرف ویزباڈن کے استغاثہ کا کہنا ہے کہ علی کی جرمنی حوالگی کے حوالے سے جرمن خفیہ ایجنسی نے کسی ڈیل یا قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ جرمن خفیہ ایجنسی کے کچھ اہلکار علی کو حراست میں لینے کے لیے خصوصی پرواز کے ذریعے عراق گئے تھے۔
کرد لڑکے علی پر الزام ہے کہ اس نے چودہ سالہ لڑکی سوزانے کو جنسی حملے کا نشانہ بنانے بعد ہلاک کر دیا تھا۔ سوزانے بائیس مئی کو لاپتہ ہوئی تھیں جبکہ ان کی لاش ایک ہفتے بعد ویزباڈن کے اُس علاقے سے ملی تھی، جہاں واقع ایک مہاجر کیمپ میں علی سکونت پذیر تھا۔
اگرچہ مبینہ طور پر علی نے اقبال جرم کر لیا ہے تاہم جرمن استغاثہ ڈی این اے رپورٹ کے نتائج کا انتظار کر رہی ہے، جس سے ملزم کے اس قتل میں ملوث ہونے کے حوالے سے شواہد مل سکیں گے۔
ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے