1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کا مشروط عدالتی فیصلہ

جاوید اختر، نئی دہلی
8 نومبر 2024

بھارتی سپریم کورٹ نے آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیت کا درجہ دینے سے انکار کی بنیاد بننے والے 1967 کے عدالتی فیصلے کو کالعدم کردیا لیکن اقلیتی حیثیت کا از سر نو تعین کرنے کا فیصلہ تین ججوں کی بنچ پر چھوڑ دیا۔

https://p.dw.com/p/4mnNu
سن 1875 میں سرسید احمد خان کے ذریعہ قائم کردہ اس تعلیمی ادارے نے برصغیر میں سیاسی، سماجی اور تعلیمی بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے
سن 1875 میں سرسید احمد خان کے ذریعہ قائم کردہ اس تعلیمی ادارے نے برصغیر میں سیاسی، سماجی اور تعلیمی بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہےتصویر: imago/Indiapicture

بھارتی سپریم کورٹ کے آج جمعے کے فیصلے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔

بیشتر لوگوں کا کہنا ہے کہ جس بنیاد پر الہ آباد ہائی کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا اقلیتی کردار چھینا تھا، اس کا خارج ہو جانا ایک بڑی کامیابی ہے لیکن چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے 'یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن بھی صرف اقلیتوں یعنی مسلمانوں کے لئے ضروری نہیں' قرار دے کر مستقبل میں خطرے کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر اے ایم یو میں ہندو مینجمنٹ ہوگا تو طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مِنی انڈیا ہے، مودی

معروف ماہر قانون اور نیشنل لا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر فیضان مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ یہ بھارت کے مسلمانوں اور علی گڑھ کے لیے ایک تاریخی فیصلہ ہے کیوں کہ تین ججوں کی نئی بنچ جو فیصلہ کرے گی اس کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تمام دلائل کو چیف جسٹس آف انڈیا کی صدارت والی بنچ نے تسلیم کرلیا ہے۔ اور اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت برقرار ہے۔

حالیہ برسوں میں بالخصوص دائیں بازو کی جماعتیں اس یونیورسٹی کے خلاف اکثر متنازعہ معاملات اٹھاتی رہی ہیں
حالیہ برسوں میں بالخصوص دائیں بازو کی جماعتیں اس یونیورسٹی کے خلاف اکثر متنازعہ معاملات اٹھاتی رہی ہیںتصویر: DW/S. Mishra

برصغیر کا اہم تعلیمی ادارہ

خیال رہے کی سن 1875 میں سرسید احمد خان کے ذریعہ قائم کردہ اس تعلیمی ادارے نے برصغیر میں سیاسی، سماجی اور تعلیمی بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

سرسید احمد خان نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کے خطوط پرعلی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا۔ اسے 1920میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام اور ایک قانون کے ذریعہ یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔

بھارت: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مودودی اور سید قطب کی کتابیں نصاب سے خارج

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے بھارت کی تحریک آزادی اور قیام پاکستان میں اہم رول ادا کیا۔ بھارت کی متعدد اہم شخصیات اور پاکستان کے متعدد اہم رہنماؤں نے اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ہے۔ ان میں صدر پاکستان ایوب خان اور فضل الہی خان، پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان، دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین، سابق گورنر جنرل ملک غلام محمد، بنگلہ دیش کے سابق وزیراعظم محمد منصور علی، پاکستانی سینیٹ کے چیئرمین حبیب اللہ مروت، سابق وزیر انعام الحق خان اور روئیداد خان نیز بادشاہ خان کے نام سے مشہور خان عبدالغفار خان وغیرہ شامل ہیں۔

تاہم حالیہ برسوں میں بالخصوص دائیں بازو کی جماعتیں اس یونیورسٹی کے خلاف اکثر متنازعہ معاملات اٹھاتی رہی ہیں۔

سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کا از سر نو تعین کرنے کا فیصلہ تین ججوں کی بنچ پر چھوڑ دیا
سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کا از سر نو تعین کرنے کا فیصلہ تین ججوں کی بنچ پر چھوڑ دیاتصویر: Imago/Hindustan Times/S. Mehta

عدالت نے کیا کہا؟

اپنی اکثریتی رائے میں، چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ اقلیتی ادارے کمیونٹی کے ثقافتی تانے بانے کو محفوظ رکھنے کے مقصد کے ساتھ قائم کیے جاتے ہیں۔ اقلیتی اداروں میں ریاستی ضابطوں کا اطلاق جائز ہے، لیکن اس سے ادارے کے اقلیتی کردار کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔

بھارت کے تين مسلم تعليمی ادارے، دنيا بھر ميں اپنی مثال آپ

چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ "یہ ضروری نہیں ہے کہ تعلیمی ادارہ صرف اقلیتی برادری کے مقاصد کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس سے بنیادی طور پر اس کمیونٹی کو فائدہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بات کا تعین کہ آیا کوئی ادارہ مخصوص کمیونٹی کے ثقافتی تانے بانے کو محفوظ رکھنے کے مقصد سے قائم کیا گیا تھا، معلومات کے بنیادی ذرائع جیسے یونیورسٹی کی تشکیل کی دستاویزات، خطوط، تقاریر، ادارے کے قیام میں شامل اثاثے، اس کی تخلیق کے وقت آئیڈیا کو نافذ کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات وغیرہ کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے۔"

اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی ادارہ اپنا اقلیتی کردار محض اس لیے نہیں کھوسکتا کہ انتظامیہ اب کمیونٹی کے پاس نہیں رہی۔