علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کریں گے، وزیر اعلیٰ بلوچستان
28 اکتوبر 2013ان خیالات کا اظہار وزیراعلیٰ بلوچستان نے کراچی میں ڈوئچے ویلے کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ طالبان کی طرح ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے لیے انہوں نے دسمبر میں ایک اے پی سی بلانے کا فیصلہ کیا ہے جو مذاکرات کا روڈ میپ طے کرے گی۔ ان کے بقول ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے لیے کئی آپشن زیرغور ہیں۔
جب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے یہ پوچھا گیا کہ علیحدگی پسند تو پاکستانی آئین کو ہی نہیں مانتے تو ان سے بات چیت کیسے ہو گی، تو وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات پاکستانی آئین کی روشنی میں ہی ہوں گے اوراس کا روڈ میپ کل جماعتی کانفرنس میں طے کیا جائے گا۔
جب وزیر اعلیٰ سے بلوچستان میں بیرونی مداخلت کے بارے میں سوال کیا گیا تو وہ اس پر تبصرے سے گریز کرتے رہے تاہم آف دی ریکارڈ گفتگو میں انہوں نے بلوچستان میں بیرونی مداخلت کی تصدیق کی اور اسے روکنے کے لیے اقدامات کی ضرورت پر زوردیا۔
ڈاکٹرعبدالمالک نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ وہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہونے تک مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔ صوبائی وزیر اعلیٰ نے اس تاثرکو غلط قرار دیا کہ جو بھی بلوچستان جائے گا، مارا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے مقابلے میں بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال اب بہتر ہو رہی ہے جبکہ ٹارگٹ کلنگ میں بھی کمی ہوئی ہے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ برہمداغ بگٹی سمیت کسی بلوچ لیڈرسے ان کا رابطہ نہیں ہوا مگران کی ذاتی خواہش ہے کہ برہمداغ بگٹی سمیت تمام ناراض لوگوں سے بات کر کے انہیں مذاکرات پر آمادہ کیا جائے۔
ڈاکٹر بلوچ نے یہ بھی کہا کہ مسئلہ بلوچستان کا حل آئین پاکستان میں موجود ہے، اس کے لیے قومی اداروں کو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ زلزلہ متاثرین کی مکمل بحالی کے لیے تیس سے چالیس ارب روپے کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں وہ جلد ہی وزیر اعظم نواز شریف سے بات چیت کریں گے۔
ڈوئچے ویلے کے ساتھ اس انٹرویو میں ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے کوشیشں جاری ہیں۔ ان کے بقول اگر وہ اپنی ان کوششوں میں ناکام رہے، تو ان کی ناکامی ورکنگ کلاس کی ناکامی ہو گی۔