عمان شام میں اپنا سفیر بحال کرنے والی پہلی خلیجی ریاست
5 اکتوبر 20202012ء میں دمشق میں قائم خلیجی سفارتی مشن کے دفاتر پر حکومتی حملوں کے بعد احتجاج کے طور پر تمام خلیجی ممالک نے اپنے سفارتی مشن بند کر دیے تھے۔ عمان ان چند خلیجی عرب ریاستوں میں سے ایک ہے جس نے 2011 ء کی بغاوت کے بعد اور امریکا اور دیگر خلیجی ریاستوں کے غیر معمولی دباؤ کے باوجود صدر بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ اتوار کو شامی وزیر خارجہ نے عمان کے سفیر ترک بن محمود البوسعیدی کی اسناد قبول کرتے ہوئے انہیں آئندہ مارچ سے شاہی فرمان کے ساتھ عمان کے سفیر کے طور پر دمشق میں ان کی تعیناتی کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
دمشق حکومت کے ساتھ صلح
شامی تنازعے میں حکومت نواز فورسز کی فتوحات کے بعد چند عرب ریاستیں دمشق کے ساتھ صلح کی خواہاں ہیں۔ اس کا مقصد شام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش ہے۔ خاص طور سے غیر عرب ریاستوں ترکی اور ایران کے مقابلے میں جو شامی صدر بشار الاسد کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔ عمان کے سلطان ھیشم بن طارق بن تیمور آل سعید نے جنوری میں اقتدار سنبھالتے وقت وعدہ کیا تھا کہ وہ تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھیں گے اور بحرین کی طرح، ہر جگہ اپنا سفارت خانہ کھلاُ رکھیں گے۔ متحدہ عرب امارات نے دمشق میں 2018ء میں اپنا مشن دوبارہ کھولتے ہوئے بشارالاسد کو سفارتی فروغ دینے کی کوشش کی تھی اور وہاں اپنا ایک ''چارج ڈے فیئر‘‘ مقرر کیا تھا۔
باغیوں کی پشت پناہی
متحدہ عرب امارات باغیوں کی حمایت کرنے والی متعدد علاقائی ریاستوں میں شامل تھی، اگرچہ اس کا کردارسعودی عرب اور قطر کے مقابلے میں کم نمایاں تھا۔ یہ دونوں عرب ریاستیں اب بھی دمشق کے ساتھ تعلقات کی دوبارہ بحالی کے معاملے کو روکے ہوئے ہیں۔ کویت نے کہا ہے کہ وہ دمشق میں اپنا مشن دوبارہ اس شرط پر کھولے گا کہ اس بارے میں عرب میں میں باقائدہ ایک معاہدہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ عرب لیگ نے 2011ء میں شام کی رکنیت ختم کر دینے کا اعلان کیا تھا۔
دریں اثناء بشار الاسد نے ایران اور روس کے ساتھ ساتھ ریاض اور ابو ظہبی کے دشمن، ایرانی حمایت یافتہ شیعہ مسلم گروپ حزب اللہ کے تعاون اور مدد سے شام کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے-
امریکا نے نئی پابندیاں عائد کیں جن کا مقصد اسد کی حکومت کے لیے فنڈز کی فراہمی کے سلسلے کو روکنا ہے اور ساتھ ہی انتباہ بھی کیا کہ جو بھی دمشق کے ساتھ کاروبار کر رہا ہے اُسے بھی بلیک لسٹ کر دیے جانے کے خطرات کا سامنا ہے۔
ک م / ا ب ا (روئٹرز، اے ایف پی)