عنبرین کو آگ لگانے سے قبل گلے میں دوپٹہ ڈال کر قتل کیا گیا
6 مئی 2016ایک ہفتہ کی تحقیقات کے نتیجے میں پولیس نے مقتول لڑکی عنبریں کی والدہ شمیم سمیت گاڑی کے ڈرائیور نصیر، مقامی کونسلر پرویز سمیت جرگہ کے چودہ افراد کو حراست میں لے کر ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمات درج کر لیے ہیں۔
مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ عنبرین نے اپنی سہیلی صائمہ دختر صفدر کا پسند کی شادی کرنے میں ساتھ دیا تھا، جس کا صائمہ کے برادری کو دکھ تھا۔ صائمہ شادی کے بعد سے اپنے شوہر کے ساتھ لاپتہ ہے تاہم بعض لوگ اس شک کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ اس ہیں کہ اس جوڑے کو بھی قتل کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے اس بارے میں بھی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ دوسری جانب مقامی پولیس کے سربراہ خرم رشید کا کہنا تھا، ’’عنبرین کو پہلے نشہ آور گولیاں دے کر بے ہوش کیا گیا، بعد میں گلے میں دوپٹہ ڈال کر اسے قتل کر دیا گیا اور ثبوت مٹانے کی غرض سے اسے گاڑی میں ڈال کر آگ لگا دی گئی، جس میں عنبرین مکمل طور پر جل گئی۔ یہ گاڑی مکلول کے علاقے کے قریب ڈونگا گلی کے سٹینڈ میں دوسری گاڑیوں کے ساتھ کھڑی کی گئی تھی تاکہ آگ لگنے کے بعد اس میں لگے گیس سیلنڈر میں دھماکہ ہو جائے اور مکمل ثبوت ختم ہوجائیں۔‘‘
پولیس کا کہنا ہے لڑکی کو آگ لگانے کا حکم دینے والا نام نہاد جرگہ علاقے کے عمائدین کا نہیں بلکہ بعض غیر معروف افراد کا تھا۔ پولیس کے مطابق، ’’تحقیقات کے دوران ایک ویران جگہ سے نشہ آور اشیاء جبکہ گاڑی کے قریب سے پٹرول کی کین ملی ہے جبکہ جرگے کے بعض ارکان نے مل کر مقتولہ لڑکی کو گاڑی تک پہنچایا اور اس کے ہاتھ باندھ کر گاڑی پر پٹرول چھڑکنے کے بعد آگ لگا دی۔‘‘
مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ صائمہ کے فرار میں مدد دینے والوں کو سزا دینے کے لئے یہ جرگہ منعقد کیا گیا اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ سہولت کار عنبرین اور جس گاڑی میں صائمہ اپنے شوہر کے ساتھ فرار ہوئی کو جلایا جائے۔ عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ اس گاڑی میں رات کے وقت آگ لگی تو لوگ آگ بجھانے کے لئے جمع ہوگئے تھے اور بعدازان پولیس نے آ کر گاڑی سے لڑکی لاش برآمد کی۔
پولیس نے عنبرین کی والدہ شمیم بیگم کو بھی حراست میں لیا ہے، جس نے سب کچھ جانتے ہوئے پولیس کو آگاہ نہیں کیا تھا لیکن شمیم بیگم کا کہنا ہے کہ انہیں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر لب کشائی کی تو اس کے خطرناک نتائج ہوں گے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان مشتاق غنی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے، ’’یہ ایک نام نہاد جرگہ تھا جس کے چودہ ارکان کو پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ ان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں اور ان لوگوں کو نشان عبرت بنایا جائے گا تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہو سکیں۔‘‘
پاکستان میں غیرت کے نام پر کسی خاتون کو قتل کرنے کا یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں تھا بلکہ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے تنظیموں کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں گیارہ سو خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس میں نو سو ستاسی خواتین کو قتل کر دیا گیا تھا۔
خیبر پختونخوا میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شوکت علی یوسفزئی کا کہنا تھا، ’’پی ٹی آئی کی حکومت نے تیزی سے قانون سازی کی ہے۔ خواتین کے حقوق کے لئے ہر قدم اٹھائیں گے جہاں تک ایبٹ آباد کے واقعے کا تعلق ہے تو پولیس نے اس میں کافی پیش رفت کی ہے۔ جس طرح رکن اسمبلی سورن سنگھ کے قتل میں ملوث افراد قانون کی گرفت سے بچ نہ سکے، اسی طرح ان لوگوں کو بھی کڑی سزائیں دلوائیں گے تاکہ اس طرح کے اقدامات کی روک تھام کی جا سکے۔‘‘
ایبٹ آباد میں عنبرین کے قتل پر انسانی اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں سمیت وکلاء برادری بھی سراپا احتجاج ہیں۔