عوام سول نافرمانی شروع کر دیں، عمران خان
18 اگست 2014خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق عمران خان کے اس اعلان کے بعد پہلے سے معاشی اور سیاسی عدم استحکام کے شکار ،پاکستان میں مزید انتشار کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
پارلیمان میں تیسری سب سے بڑی سیاسی قوت کے حامل عمران خان نے یہ اعلان دارالحکومت اسلام آباد میں حکومت مخالف دھرنے میں شامل ہزاروں افراد سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے گزشتہ برس ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ دوہرایا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے اس اعلان کے بعد ملک میں جمہوری حکومت کے خاتمے اور فوج کے اقتدار پر قابض ہو جانے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
اپنے خطاب میں عمران خان نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر نواز شریف اگلے 48 گھنٹوں میں مستعفی نہ ہوئے، تو ان کے حامی پارلیمان پر قبضہ کر لیں گے۔ اپنے دس سے پندرہ ہزار حامیوں کے اس اجتماع سے خطاب میں عمران خان نے کہا، ’ہم نے آج فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس غیر قانونی حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کریں گے۔ ہم بجلی اور گیس کے بل نہیں چکائیں گے۔ میں تمام تاجروں سے کہتا ہوں کہ وہ حکومت کو ٹیکس دینا بند کر دیں۔‘
دوسری جانب عمران خان کے اس اجتماع کے قریب ہی ایک اور اپوزیشن جماعت پاکستانی عوامی تحریک بھی اپنا حکومت مخالف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس جماعت کے سربراہ اور مذہبی رہنما طاہر القادری نے کہا کہ نواز شریف دھاندلی کر کے اقتدار پر قابض ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھی وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا۔
عمران خان کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ عمران خان کا یہ اعلان غیر آئینی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے سول نافرمانی کے اعلان کو ایک ’مذاق‘ قرار دیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت انتخابی اصلاحات کے حوالے سے عمران خان کے مطالبات پر ملکی دستور میں رہتے ہوئے بات چیت کے لیے تیار ہے۔
اتوار کے روز پاکستانی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ حکومت نے عمران خان اور طاہر القادری سے مذاکرات کے لیے دو علیحدہ کمیٹیاں قائم کر دی ہیں۔ ’ہم آپ کے تمام آئینی اور قانونی مطالبات تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔‘
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق دو رہنماؤں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ تقریباﹰ ایک ملین افراد کو اسلام آباد لانے میں کامیاب ہو جائیں گے، تاہم ایسا نہیں ہوا۔ لیکن ان مظاہروں کے موقع پر اسلام آباد میں سخت ترین سکیورٹی اقدامات کی وجہ سے دارالحکومت عملی طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔