عید پر بھی پستول اور بندوق کا استعمال؟
20 جولائی 2015افغانستان کی وزارت صحت میں ایک بیان دیتے ہوئے کابل ہسپتال کے حادثات کے شعبے کے سربراہ سید کبیر امیری نے کہا،’’ کھلونے کی پستول اور بندوقیں استعمال کرنے والے ان بچوں کے چہرے زخمی ہوئے ہیں، خاص طور سے ان کی آنکھوں میں زخم آئے ہیں‘‘۔
ان واقعات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اُن کا مزید کہنا تھا،’’ جمعے کو ہمارے پاس 42 جبکہ سنیچر کو 33 بچے آئے تھے۔ یہ تعداد عام دنوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھی۔ خوش قسمتی سے ان میں سے کسی کو بھی خطرناک زخم نہیں آئے‘‘۔
ایک غیر سرکاری مقامی ادارے کے کارکُن علی محمد ہاشم نے خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا،’’ میرا بیٹا باہر سڑک پر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ پڑوس سے ایک کھلونے کی پستول کی گولی میرے بیٹے کی آنکھ میں آ کر لگی۔ اُس کی آنکھ بالکل سُرخ ہو گئی ہے اور بہت سوج گئی ہے تاہم خدا کا شکر ہے کوئی مستقل اور بڑا نقصان نہیں ہوا۔‘‘
افغان گن کلچر
عشروں سے جنگ زدہ ہندوکُش کی اس ریاست میں گزشتہ چند برسوں کے دوران بچوں میں پلاسٹک Air Guns کے استعمال اور ان کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ سماجی امور کے ماہرین اور سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس رجحان کے پیچھے افغانستان کے ’گن کلچر‘ کا ہاتھ ہے۔
افغانستان میں ریستورانوں، دکانوں اور کھیل کے میدانوں سے لے کر اسکولوں تک میں ہر جگہ گنز اور آتشیں اسلحہ جات دکھائی دیتے ہیں، جو زیادہ تر حفاظت کے لیے رکھے جاتے ہیں۔
انسانی حقوق کے چند کارکنوں نے فیس بُک اور ٹوئٹر پر افغانستان میں کھلونے کے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خلاف سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا ہے۔ افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان کے ایک صوبے میں اس سال عید کے موقع پر مصنوعی پستول اور گنز کی فروخت پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔
افغانستان کی وزارت داخلہ نے وزارت مالیات سے کہا ہے کہ وہ کھلونے کی پستولوں اور بندوقوں کی درآمدات پر پابندی عائد کرنے سے متعلق قانونی مسودہ تیار کرے۔ وزارت مالیات کے ایک ترجمان اجمل حمید عبدل راحیم زئی کے بقول،’’ ہم نے پہلے ہی پلاسٹک کے ایسے کھلونوں پر ٹیکس میں اضافہ کر دیا ہے تاکہ اس کی درآمدات کی حوصلہ شکنی ہو‘‘۔
گزشتہ برس درآمد کندگان کو ان کھلونے پر10فیصد ٹیکس دینا پڑتا تھا۔ آئندہ تین ماہ کے دوران اسے بڑھا کر 50 فیصد کردیا جائے گا۔ تاہم محض ٹیکس میں اضافہ اس مسئلے کا حل نظر نہیں آتا کیونکہ ٹیکس بڑھ جانے کے بعد بھی کھلونوں کے ہتھیاروں کی فروخت کے لیے بلیک مارکیٹیں موجود ہیں جن کے کاروبار کو مزید فروغ ملے گا۔