یہ کچھ ماہ پہلے کی بات ہے، جب ایک دوست کوایک ڈرائیور چاہیے تھا۔ ڈرائیور ڈھونڈنا شروع کیا اور اندازہ ہوا کہ بے روزگاری کتنی بڑھ چکی ہے خاص طور پرکورونا کے بعد۔ ہمیں اتنا یقین تھا کہ دو دن تک ڈرائیور مل جائےگا۔
کیونکہ روزانہ نوکری کے لیے لاتعداد فون آتے تھے۔ آخر ایک لڑکا چنا، پیسے طے کیے اور حیران کن طور پر وہ ایک دن بھاگ گیا۔ 6 گھنٹے نوکری کی تنخواہ 20 ہزار بھی اسے کم لگی جبکہ وہ بے روزگار تھا؟ اور یوں تین سے چار لوگ آ کر واپس چلے گئے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر جن میں سے اکثر اب بھی بے روزگار ہی ہیں۔
یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں کام کرنے کی عادت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح تو نظر آ رہی ہے مگر کیا کبھی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کام کے کتنے مواقع میسر ہیں مگر ہمارا نوجوان 80 ہزار کی تمنا میں فارغ بیٹھ کر صرف خواب دیکھتا ہے مگر 20 ہزار سے اپنے سفر کا آغاز کرنا اپنی بے عزتی سمجھتا ہے۔
ملک میں چلتے آٹے کے بحران نے بھی غربت، افلاس، بے روزگاری اور تنگ دستی کا شکار ان افراد کے لیے آواز بلند کی جن کے گھروں میں بھوک ناچتی ہے۔ مگر کیا کبھی ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کیوں ان گھروں سے غربت جانے کا نام ہی نہیں لے رہی؟
زینب سے میرا پہلی بار سامنا آج سے تین سال پہلے ہوا جب وہ ہمارے دروازے پر بھیک مانگنے آئی۔ اس کے ساتھ دو سال کی بیٹی تھی جبکہ پیٹ میں ایک اور بچہ دنیا میں آنے کی امید لیے ہوئے تھا۔ آج تین سال بعد زینب کے گھر میں بھوک ویسے ہی ناچ رہی ہے مگر اب اس کے پانچ بچے ہیں۔ زینب کہتی ہے شوہر معذور ہے اور اب یہ بچے بھیک مانگیں گے اور ہمارا پیٹ بھرے گا۔
سوال ریاست پر اٹھتا ہے کہ گداگری ایکٹ کے ہوتے ہوئے بھی ہماری حکومت کیوں بھکاریوں کے خلاف ایکشن نہیں لیتی۔ ساہیوال شہر ہو یا شہر اقتدار ہر چھوٹی اور بڑی شاہراہ پر آپ کو تین سال کے بچے سے لے کر ساٹھ سال تک کا بزرگ بھی بھیک مانگتے ہوئے ملے گا مگر پولیس یا انتظامیہ نہیں ملے گی۔ تو کیا ہماری ریاست جانتے بوجھتے ہوئے اس قوم کو بھکاری بنا کر ایک دوسرے کو نوچتے دیکھنا چاہتی ہے؟
مفت آٹے کے مراکز میں ایک شخص دس دس کلو کے دو تھیلے اپنے شناختی کارڈ پر لے جا سکتا ہے اور دوسری بار یہ عمل دس دن بعد دہرایا جا سکتا ہے۔ تو جس گھر کے دو یا چار افراد ایک بار میں چالیس یا اسی کلو آٹا لے جائیں تو دو ماہ با آسانی گزر سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر بھی بھیڑ کم کیوں نہیں ہوتی؟ بدقسمتی سے ان میں سے بہت سے افراد زیادہ آٹا لے جا کر اپنے ہی علاقوں میں اسے بیچ رہے ہیں اور ہوس کی ایسی لت میں مبتلا ہو چکے ہیں، جہاں تہذیب خود منہ چھپا کر نو دو گیارہ ہونا پسند کرتی ہے۔
لمبی قطاروں میں لگے یہ لوگ یقینا اس حقدار کا حق بھی صلب کر رہے ہیں، جسے ضرورت تو ہے مگر خوداری کے باعث وہ ہاتھ پھیلانے اور چھینا جھپٹی کرنے سے جھجھکتا ہے۔ ہمارے اندر برداشت کا مادہ اس قدر کم ہے کہ انتظامیہ کے بہتر سے بہترین انتظامات کے باوجود بھی ایک دوسرے کو دھکے دینا، بال نوچنا، گالی دینا اور یہ چاہنا کہ جو کچھ موجود ہے وہ مجھے مل جائے، قوم کی تربیت اور روایات کا پتا دیتی ہے۔
اس ملک کا مسئلہ غربت نہیں ہے بلکہ سب سے بڑا مسئلہ کام چوری ہے اور اس کے بعد گداگری۔ اندازہ کیجیے کہ جو مزدور پورا دن کام کرکے ایک ہزار مزدوری لیتا ہے وہ فائدے میں ہے یا پھر جو فقیر روزانہ بھیک مانگ کر تین سے چار ہزار کما لیتا ہے؟ ایک اور بڑا مسئلہ خیراتی اداروں کے مفت کھانے کے لگائے گئے سٹالز بھی ہیں، جہاں سے نشہ کرنے والا، بھکاری اور کام چور انسان باآسانی پیٹ بھر کر جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے یہ روٹی اسے بغیر محنت کے کل بھی مل جائے گی۔
آزما کر دیکھ لیجیے، کبھی کسی فقیر سے یہ کہیے کہ اور میں کام دیتا ہوں وہ کرو پھر پیسے دونگا۔ وہ فقیر فوراﹰ پلٹ جائے گا اور مڑ کر آپ کی جانب نہیں دیکھے گا۔ مہنگائی کا بڑھتا طوفان، بے روزگاری کی بڑھتی شرح، نوجوانوں کا منشیات کی جانب بڑھتا رحجان ایک طرف مگر آبادی میں مسلسل ہونے والا اضافہ سب سے زیادہ قابل غور عمل ہے۔
وہ نوجوان جو اپنا خرچ نہیں اٹھا سکتا اس کے گلے میں ذمہ داری کا ایک ڈھول زبردستی ڈالا جاتا ہے اور پھر اس رشتے کی مضبوطی کے لیے اگلے ہی سال پہلے بچے کی پیدائش لازمی فریضہ سمجھ کر ادا کیا جاتا آ رہا ہے۔ پھر بچوں کی پیدائش کا سلسلہ جسے روکنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کا اشتہار تو چلتا ہے مگر مراکز میں سہولیات ہیں اور نہ کنڈوم غریب کی پہنچ میں۔ دوسرا مسئلہ یہاں بھی دین کے ٹھیکے داروں کی جانب سے لگائے جانے والے فتوں کا ہے۔
غریبی طرز زندگی یا بیچارگی نہیں ہے بلکہ بہت سے لوگوں کے لیے اب دھندہ بن چکی ہے۔ اصل ضرورت مند کبھی سوالی بن کر سامنے نہیں آتا۔ مگر رمضان میں سڑکوں پر پھرتے بھکاری بالکل برسات میں نکلنے والے پتنگوں کی طرح ہر جگہ نظر آتے ہیں کیونکہ یہ دن ان کے لیے سیزن کی طرح ہوتے ہیں مگر یہ لوگ کبھی اپنی آنے والی نسلوں کو اس غربت سے نکالنے کے بارے میں نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی کوشش کرتے ہیں۔
غریبی کو بیچنا اور کیش کرنا اب بند کرنا ہو گا۔ غربت کے نام پر سجی دکانوں کو بھی بند کرنا ہو گا ورنہ جس طرح آج اس ملک کے حکمران ہر ملک میں جا کر کشکول پھیلاتے ہیں بلکل ویسے ہی ہماری آنے والی نسل بھی فنکار بن کر محنت کرنے کی بجائے ہاتھ پھیلانے اور غربت بیچ کر ہمدریاں لینے کو فوقیت دے گی اور اس میں نہ تو کبھی وہ عار محسوس کرے گی اور نہ ہی شرمندگی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔