غزل ’دم توڑ‘ رہی ہے، جگجیت سنگھ
6 ستمبر 2011گائیکی کے کچھ ريئلیٹی شوز میں خود جج کا کردار ادا کرنے والے جگجیت سنگھ اب ایسے پروگراموں سے اکتاہٹ محسوس کر رہے ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے گائیکی سے وابستہ جگجیت کہتے ہیں، ’’ريئلیٹی شوز فنِ غزل میں کوئی بہتری نہیں لا رہے۔ وہ بس 15منٹ کے لیے مقبولیت فراہم کرتے ہیں۔ اس کے بعد فاتح وہاں سے نیچے کی طرف گرتے چلے جاتے ہیں۔ چینلوں کے لیے یہ کاروباری مصنوعات کی طرح ہیں۔‘‘
غزل گائیکی کے مستقبل کے بارے میں جگجیت سنگھ فکر مند ہیں، ’’ان دنوں بہت کم غزل گلوکار بچے ہیں کیونکہ انہیں کوئی پلیٹ فارم نہیں مل رہا ہے۔ نئی نسل سیکھنا چاہتی ہے، لیکن اب یہ مقبول نہیں رہی، تو نوجوان اس کی تربیت بھی حاصل نہیں کر رہے، ایسی صورت حال میں آپ نئی نسل کو غزل گاتے اور سنتے ہوئے کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
بھاری آواز اور کلاسیکی گائیکی کے لیے جانے جانے والے 70 سال کے جگجیت سنگھ کا خیال ہے کہ بھارت میں باصلاحیت گلوکاروں کی کمی نہیں ہے لیکن چمک دھمک کے اس دور میں اصل گلوکار کا آگے آنا مشکل ہے، ’’اگر چینل والے فطری صلاحیتوں کی واقعی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں شرکاء کو شو ختم ہونے کے بعد بھی تربیت دینا چاہیے۔ موسیقی ایک وسیع موضوع ہے۔ اس کی اپنی ریاضی اور گرائمر ہے۔ جب تک کسی کو یہ سب پتہ نہیں ہوتا، وہ ایک اچھا گلوکار نہیں بن سکتا۔ 15 سال تک موسیقی سیکھنے کے بعد ہی کسی کو غزل گائیکی کا فن حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘
جگجیت سنگھ مشہور پاکستانی غزل گلوکار غلام علی کے ساتھ دہلی میں تھے۔ پرانے دن یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’جب وہ (غلام علی) بھارت آتے ہیں، تو ممبئی میں میرے گھر آتے ہیں۔ ہم موسیقی کے بارے میں بھی گفتگو کرتے ہیں لیکن زیادہ تر وقت گھر اور خاندان کے بارے میں بات ہوتی ہے۔ ہم 1980 میں ایک محفل موسیقی کے دوران لندن میں ملے تھے اور تب سے ہی یہ دوستی چلی آ رہی ہے۔‘‘
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عاطف توقیر