غزہ اب ’ناقابل رہائش‘ ہو چکا ہے، اقوام متحدہ
6 جنوری 2024اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی محصور سرزمین تین ماہ کی جنگ کے باعث ’’ناقابل رہائش‘‘ ہو چکی ہے۔ سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے عسکریت پسندوں کے حملوں سے شروع ہونے والی اس لڑائی نے پورے خطے میں تناؤ پیدا کر رکھا ہے۔ یہ جنگ اب چوتھے مہینے میں داخل ہونے والی ہے اور اس میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
اسرائیلی جنگی طیاروں نے ہفتے کی صبح جنوبی غزہ پر ایک مرتبہ پھر شدید بمباری کی۔ اے ایف پی کے نامہ نگاروں کے مطابق یہ حملے جنوبی شہر رفح پر کیے گئے، جہاں لاکھوں افراد نے پناہ حاصل کر رکھی ہے۔ حماس کے زیرکنٹرول غزہ کی پٹی میں جنگ کی وجہ سے لوگوں کو بڑے پیمانے پر تباہی، تشدد اور نقل مکانی کےگہرے ہوتے ہوئے انسانی بحران کا سامنا ہے۔ اس ساحلی پٹی کا زیادہ تر علاقہ پہلے ہی ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور اب اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے امور کے سربراہ مارٹن گریفتھس نے کہا ہے،''غزہ ناقابل رہائش ہو گیا ہے۔''
حزب اللہ کی طرف سے 'ابتدائی ردعمل کا آغاز'
اسی دوران لبنان میں شیعہ ملیشیا حزب اللہ نے کہا ہے کہ اس نے ہفتے کے روز بیروت میں حماس کےنائب سربراہ کی ہلاکت پر اسرائیل کے خلاف اپنے ''ابتدائی ردعمل‘‘ کا آغاز کر دیا ہے۔ ایرانی حمایت یافتہ اس گروپ نے کہا ہےکہ اس نے اسرائیلی فوج کے میرون ایئر کنٹرول بیس کو 62 میزائلوں سے نشانہ بنایا، جب کہ اسرائیلی فوج نے ہفتے کی صبح ''لبنان سے تقریباﹰ چالیس لانچنگز‘‘ کی اطلاع دی، جس کے باعث گلیلی کے علاقے میں سائرن بجائے گئے۔
حماس کی اتحادی لبنانی تحریک حزب اللہ اکتوبر کے اوائل سے اسرائیلی فورسز کے ساتھ تقریباً روزانہ فائرنگ کا تبادلہ کر رہی ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے حزب اللہ کے ان حملوں میں حصہ لینے والے سیل پر جوابی حملہ کیا ہے۔ فوجی ترجمان ڈینیئل ہگاری نے جمعے کو دیر گئے کہا کہ اسرائیلی فورسز العروری کی ہلاکت کے بعد لبنان کے ساتھ سرحد پر ''انتہائی اعلیٰ درجے کی عسکری تیاری‘‘ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ہگاری نے کہا کہ ان کی فوج غزہ کے شمال، مرکز اور جنوب میں لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘
غزہ کے ہسپتالوں کی خراب صورتحال
سات اکتوبر کو اس جنگ کا آغاز حماس کے اسرائیل پر ایک غیر معمولی حملے سے ہوا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباً 1,140 افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ عسکریت پسندوں نے 250 کے قریب یرغمالی بھی بنائے، جن میں سے 132 اب بھی حماس کی قید میں ہیں۔ اسرائیل کے مطابق ان یرغمالیوں میں سے کم از کم 24 ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی طرف سے اب تک غزہ پر کیے گئے حملوں میں کم از کم 22,600 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی نے جمعہ کے روز خان یونس میں الامل ہسپتال کے اطراف کے علاقے میں گولہ باری اور ڈرون فائرز کی اطلاع دی۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق غزہ میں قائم 36 ہسپتالوں میں سے زیادہ تر لڑائی کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں، جبکہ ابھی تک کھلے رہنے والے ہسپتالوں کو طبی سہولیات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ وسطی غزہ میں واقع الاقصٰی شہداء ہسپتال کے ترجمان نے کہا، ''ہمیں وبائی امراض کے پھیلاؤ کی وجہ سے ایک انسانی تباہی کا سامنا ہے، ہسپتال بے گھر لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔‘‘
دریں اثناء اقوام متحدہ کی ایک ٹیم نے جمعہ کے روز خان یونس میں غزہ کے حکام کو طبی سامان پہنچایا۔ ڈبلیو ایچ او کے کوآرڈینیٹر شان کیسی کے مطابق'' یہ دس دنوں میں پہلی بار ہوا ہے کہ ہم اس سامان کی ترسیل ممکن بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘‘
ش خ / اا / ع ب (اے ایف پی)