غزہ جنگ بندی معاہدے پر تاخیر سے لیکن عمل درآمد شروع ہو گیا
19 جنوری 2025امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی کوششوں سے غزہ پٹی میں اسرائیل اور حماس کے مابین گزشتہ پندرہ ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے جاری جنگ میں جس فائر بندی پر عمل درآمد آج اتوار 19 دسمبر کی صبح عالمی وقت کے مطابق صبح ساڑھے چھ بجے اور مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے شروع ہونا تھا، وہ سیزفائر ڈیل بروقت نافذ نہ ہو سکی۔
اسرائیلی حکومت کا اصرار تھا کہ پہلے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس اپنے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں کے ناموں کی فہرست مہیا کرے۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کا کہنا تھا کہ جب تک حماس یہ فہرست مہیا نہیں کرتی، تب تک فائر بندی معاہدے پر عمل درآمد شروع نہیں ہو گا۔
حماس نے تین یرغمالی خواتین کے نام مہیا کر دیے
اتوار کی صبح غزہ کے مقامی وقت کے مطابق قبل از دوپہر ملنے والی رپورٹوں کے مطابق حماس نے تین ایسی اسرائیلی یرغمالی خواتین کے نام اسرائیل کو مہیا کر دیے ہیں، جنہیں اس سیزفائر ڈیل پر عمل درآمد کے اولین مرحلے میں سب سے پہلے رہا کیا جانا ہے۔
غزہ سیزفائر: جنگ کے بعد یورپی یونین کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟
حماس نے ایک بیان میں کہا کہ اس کی طرف سے یرغمالیوں کے ناموں کی فہرست مہیا کیے جانے میں تاخیر غزہ کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر ''تکنیکی وجوہات‘‘ کی بنا پر ہوئی۔
ساتھ ہی حماس کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ان تین اسرائیلی یرغمالی خواتین کو آج اتوار کی سہ پہر رہا کر دیا جائے گا، جس کے بعد معاہدے کے مطابق اسرائیل کو غزہ پٹی کے کچھ علاقوں سے اپنے فوجیوں کی واپسی کا عمل شرع کرنا ہو گا۔
تین مراحل پر مشتمل فائر بندی معاہدہ
اسرائیل اور حماس کے مابین مجموعی طور پر تین مراحل پر مشتمل یہ فائر بندی معاہدہ امریکہ، قطر اور مصر کے ثالثی مندوبین کی ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہوا۔
اس معاہدے کے لیے عین آخری دنوں میں ثالثی کوششیں اس لیے بھی بہت تیز کر دی گئی تھیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ ڈیل 20 جنوری کے اس دن سے پہلے پہلے طے پا جائے، جب امریکہ میں صدر جو بائیڈن کے جانشین کے طور پر نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
حماس سیزفائر معاہدے کا احترام نہیں کر رہی، اسرائیل
اس معاہدے کا پہلا مرحلہ چھ ہفتے دورانیے کا ہو گا، جس دوران حماس کی طرف سے اس کے زیر قبضہ باقی ماندہ 98 اسرائیلی یرغمالیوں میں سے 33 کو رہا کیا جائے گا۔ ان یرغمالیوں میں خواتین، بچے، 50 سال سے زائد عمر کے مرد اور بیمار اور زخمی یرغمالی شامل ہوں گے۔
ان کے بدلے میں اسرائیل اپنے ہاں جیلوں میں بند تقریباﹰ دو ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ ان میں 737 ایسے فلسطینی لڑکے اور لڑکیاں بھی شامل ہوں گے، جن کی عمریں بیس سال سے کم ہیں۔
رفح سے اسرائیلی دستوں کا انخلا
غزہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق حماس کے حامی فلسطینی میڈیا نے بتایا کہ اسرائیلی دفاعی افواج نے اتوار کی صبح غزہ پٹی میں مصر کے ساتھ سرحد کے قریب رفح کے کچھ علاقوں سے اپنے دستے نکال کر واپس فلاڈیلفی کوریڈور کی طرف بھیجنا شروع کر دیے تھے۔
غزہ میں فائر بندی کی عالمی سطح پر پذیرائی
قبل ازیں گزشتہ رات غزہ میں مسلسل دھماکوں کی آوازیں بھی سنی جاتی رہیں۔ غزہ کے شہری دفاع کے ادارے اور امدادی کارکنوں نے بتایا کہ گزشتہ رات نصف شب کے بعد بھی جاری رہنے والے اسرائیلی فضائی حملوں میں غزہ پٹی میں مزید کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور 25 سے زائد زخمی ہو گئے۔
غزہ سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بسال نے بتایا کہ اتوار کے روز مرنے والوں میں سے تین افراد شمالی غزہ میں اور باقی پانچ غزہ سٹی میں مارے گئے۔
انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کا اسرائیلی مخلوط حکومت سے نکلنے کا اعلان
آج اتوار ہی کے روز، جب غزہ سیزفائر ڈیل کا نفاذ تاخیر کا شکار ہو رہا تھا، اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قوم پسند سیاستدان اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر کی پارٹی نے اعلان کر دیا کہ وہ وزیر اعظنم نیتن یاہو کی مخلوط حکومت سے علیحدہ ہو رہی ہے۔
درجنوں اسرائیلی فوجیوں کا غزہ میں لڑنے سے مشروط انکار
'جیوئش پاور‘ نامی اس پارٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس نے مخلوط حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ غزہ میں سیزفائر کے اس معاہدے کے خلاف احتجاج کے طور کیا، جو کسی ''بہت بڑے اسکینڈل‘‘ سے کم نہیں۔
غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد ریکارڈ سے 40 فیصد زیادہ، لینسیٹ
ساتھ ہی انتہائی دائیں بازو کی سوچ کی حامل اس اسرائیلی سیاسی پارٹی نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کا حماس کے ساتھ فائر بندی معاہدہ کرنا ''حماس کے آگے ہتھیار ڈال دینے کے مترادف‘‘ ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف اسرائیلی جیلوں سے ''سینکڑوں قاتل‘‘ رہا کر دیے جائیں گے، بلکہ ساتھ ہی ''غزہ کی جنگ میں اسرائیلی فوج کی اب تک کی کامیابیاں بھی پس پشت ڈال‘‘ دی جائیں گی۔
غزہ میں اب تک ہونے والی ہلاکتیں
غزہ کی جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023ء کے روز فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے اسرائیل میں اس بڑے دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد شروع ہوا تھا، جس میں تقریباﹰ 1200 افراد مارے گئے تھے اور فلسطینی جنگجو واپس غزہ پٹی جاتے ہوئے تقریباﹰ ڈھائی سو اسرائیلیوں کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔
اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے خلاف وسیع تر زمینی، بحری اور فضائی حملے شروع کر دیے تھے۔
غزہ جنگ کے بعد کی صورتحال: یو اے ای پس پردہ مذاکرات کا حصہ
غزہ کی 15 ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ میں، جس میں ایک سیزفائر ڈیل اب بالآخر نافذ ہو گئی ہے، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک تقریباﹰ 47 ہزار فلسطینی ہلاک اور ایک لاکھ دس ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔
حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اس جنگ میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں اکثریت فلسطینی خواتین اور بچوں کی ہے۔
م م / ا ا، ع ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)