غزہ میں نوجوانوں کا مستقبل، تاریک یا روشن
1 اگست 2009اس صورتحال میں وہاں کی نوجوان نسل شدید مایوسی کا شکار ہے۔ اس وقت غزہ میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ختم ہو چکے ہیں اور نتائج کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ لیکن انٹرمیڈیٹ کے بعد کیا ہو گا؟ انٹرمیڈیٹ کے بعد ان نوجوانوں کے پاس کیا مواقع ہیں؟ غزہ کے بیرونی دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ جانے کی وجہ سے وہاں کے نوجوانوں کا مستقبل زیادہ پر امید نظر نہیں آتا۔ غزہ کے نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہیں اور اس کی سب بڑی وجہ وہاں روزگار کے وہ مواقع ہیں جو ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
غزہ میں آج کل اسکولوں اور کالجوں میں چھٹیاں ہیں۔ بچے یا تو سڑکوں پرکھیلتے نظر آتے ہیں یا پھرگرمائی کیمپوں میں ہیں۔ سمرکیمپس اقوام متحدہ کی جانب سے تعمیر کئے گئے ہیں جہاں حماس تنظیم کے کارکن بچوں کی مفت دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اس حوالے سے 18 سالہ موٰسی کا کہنا ہےکہ نوجوان کے لئےاس طرح کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا غزہ میں کچھ نہیں ہے، نہ تو چھٹیاں گزارنے کی کوئی خاص چیز، نہ ہی سیاحت اور بجلی بھی نہیں ہے، کچھ بھی نہیں!
موسٰی اور اس کے دوست اپنے شب و روز ایک دوسرےکے ساتھ صرف کرتے ہیں یا پھر وہ فارغ ہیں۔ ابھی حال میں ان سب کے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ختم ہوئے۔ نتائج کا انتظار ہے، لیکن امتحانات میں کامیابی کے بعد کیا ہو گا؟ موسیٰ کے دوست یحٰیی نے اس حوالے سےپہلے ہی سے منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ یحیٰی کو امید ہےکہ وہ انٹرمیڈیٹ میں پاس ہو جائے گا۔ اس کے بعد اس کا ارادہ بیرون ملک صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کا ہے۔ ساتھ ہی وہ وظیفہ حاصل کرنے کی بیھ کوشش کرے گا۔ اور اگر اس کے یہ سارے منصوبے ناکام ہو گئے تو پھر وہ ہنگری میں اپنے انکل کے پاس چلا جائے گا۔
موسٰی کو نرسنگ کا پیشہ اچھا لگتا ہے جبکہ اشرف قانون کی ڈگری حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ان سب نے مستقبل کی منصوبہ بندی توکر رکھی ہے مگر ان منصوبوں کے پایہء تکمیل تک پہنچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ غزہ میں ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور بہت سے تعیلم یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں۔ نوجوان نسل کی بڑی تعداد غزہ سے باہر جا کر تعلیم اور روزگار کی تلاش میں اپنی قسمت آزمانا چاہتی ہے۔ انہی میں سے ایک،لیبارٹری اسسٹنٹ ہاشم بھی ہے۔ ہاشم نے ایکسرے ٹیکنالوجی میں تربیت حاصل کر رکھی ہے اور وہ غزہ میں وزرات صحت کا ملازم ہے۔ اس کی کوشش ہےکہ اپنے شعبے میں مزید مہارت حاصل کرنے کے لئے اسے جرمنی میں کوئی وظیفہ مل جائے۔ ہاشم نےابھی تک دنیا میں غزہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ وہ کبھی یروشلم تک بھی نہیں گیا۔ ایک مرتبہ یورپ گھومنا ہاشم کی سب سے بڑی خواہش ہے۔
غزہ چھوڑ کرکسی دوسرے ملک جانے والوں میں سے ایک سمیع عبدالشافی بھی ہے۔ سترہ سال سمیع نے امریکہ میں گزارے۔ وہاں تعیلم حاصل کی اورکام کیا۔ 2003ء میں کمپیوٹر کی تعیلم مکمل کرنے کے بعد وہ غزہ واپس آگئے ہیں۔کیا غزہ واپس آنے کے فیصلے پر انہیں افسوس ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر وہ صرف اپنی بات کریں تو تھوڑا بہت افسوس ہوتا ہے۔ لیکن جب اپنے پیشے اور پوری قوم کے حوالے سے بات کی جائے توانہیں کوئی بھی افسوس نہیں ہے۔ ان کا فی الحال غزہ چھوڑنےکا کوئی اردہ نہیں ہے اور اگر ایسا ارادہ ہوا بھی تووہ اپنی مرضی سے غزہ چھوڑنا چاہیں گا نہ کہ کوئی انیہں یہاں سے نکالے۔
دیگر افرادکی طرح عبدالشافی کو بھی غزہ میں نوجوانوں کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ غزہ پٹی کی آدھی سے زیادہ آبادی کی عمر 18 سال سے کم ہے اور ان کا باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ یہ نوجوان غربت، عدم برداشت، حماس کے دباؤ اور غیر واضح مستقبل کے ساتھ زندگی گرزارنے پر مجبور ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک