1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ کا المیہ، انسانی زندگی بے شمار مسائل سے دوچار

عابد حسین31 جنوری 2016

سن 2014 میں اسرائیل اور حماس جنگجوؤں کے مابین ہونے والی جنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں غزہ پٹی میں عام لوگ انتہائی پریشان کن مسائل سے دوچار ہیں۔ وہاں مجموعی زندگی بیکاری، بیماری اور لاچاری کا شکار ہو چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HmTb
تصویر: picure-alliance/landov/E. Zanoun

خلیجی ریاست متحدہ عرب امارت کی ایک غیرسرکاری تنظیم نے سن 2014 کی اسرائیل غزہ جنگ کے بعد خان یونس کے علاقے میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے دھات کے بنے تقریباً ایک سو مکانات فراہم کیے تھے۔ ایک مکان پانچ میٹر لمبا اور تین فٹ چوڑا ہے۔ اس میں ایک سونے کا کمرہ، دو مختلف کونوں میں ایک چھوٹا سے کچن اور ایک باتھ روم تعمیر کیا گیا ہے۔ ان گھروں کو بجلی اور گیس کی فراہمی نہیں کی گئی کیونکہ یہ عارضی ہیں اور دوسرے یہ دھات کے ہیں اور بجلی کی ایک ننگی تار ساری بستی کے لیے نقارہٴ اجل بن سکتی ہے۔ غزہ کے بیشتر علاقوں میں جلانے کی لکڑی بھی ایک نایاب شہ بن چکی ہے۔

بظاہر دیکھنے میں یہ دھاتی مکانات خوبصورت دکھائی دیتے ہیں لیکن بارش کے دوران پانی کے رساؤ کو روکنے میں ناکام رہتے ہیں اور خاص طور پر سردیوں کی بارش میں رستا پانی اندر کا درجہ حرارت مزید ٹھنڈا کرنے میں عمل انگیزی کا کردار ادا کرتا ہے۔ ان مکانات میں رہنے والے چند خاندانوں نے کوششیں کر کے چھتوں پر پلاسٹک کی شیٹیں ڈال لی ہیں تا کہ بارش میں پانی کم سے کم لیک ہو۔ دھات کے بنے ان مکانات کے میں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ سردیوں میں مردہ خانے کی طرح یخ اور گرمیوں میں لوہا پگھلانے والی بھٹی کی طرح گرم بن جاتے ہیں۔

Lage in Israel Palästina (Tag der Waffenruhe)
غزہ میں صاف پانی اکھٹا کیا جا رہا ہےتصویر: Said Khatib/AFP/Getty Images

خان یونس کے علاقے میں اقوام متحدہ کے قائم کردہ اسکولوں کو حالیہ بارشوں کے بعد بند کر دیا گیا ہے اور اِس باعث بڑے بچے گلیوں میں بیکاری کی وجہ سے بارش یا کیچڑ میں کھیلتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف چھوٹے بچے دھاتی مکانوں میں ٹھٹھر رہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ مکان کی خشک جگہ پر تھوڑی بہت آگ بھی جلائی جاتی ہیں لیکن شدید سردی کو کم کرنے میں وہ ناکافی ہوتی ہے۔

اِن مکانوں میں رہنے والا ایک فلسطینی خاندان سمیر کا ہے۔ اُس کی چوبیس برس کی نوجوان بیوی عزا النجار کو اپنے چھ ماہ کی عمر کے بچے کی جان بچانے کی فکر لاحق ہے۔ حالیہ بارش کے دوران سردی نے اُن کی پریشانیوں کو دو چند کر رکھا ہے۔ اُس کے معذور شوہر سمیر نے اپنی زندگی کے حوالے سے کہا کہ یہ سب دکھ دیکھے اور برداشت اس لیے کیے جا رہے ہیں کیونکہ وہ زندہ ہیں، اگر وہ مردہ ہوتے تو ان سب سے نجات پا چکے ہوتے۔ تیس سالہ سمیر کو سن 2008 میں اسرائیلی فوجیوں نے گولی مار کر زخمی کر دیا تھا اور اب وہ معذری کے بعد وہیل چیئر پر زندگی کے دن گزار رہا ہے۔

غزہ پٹی میں تقریباً اٹھارہ لاکھ فلسطینی آباد ہیں اور اِس گنجان آباد علاقے کی اسرائیل نے قریب ایک دہائی سے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ لوگ انتہائی کسمپرسی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ غزہ کے رہائشی اپنی زندگی کو غربت، فکرات، ناکہ بندی اور بے گھری کا دکھ ناک اور پریشان کن مرکب قرار دیتے ہیں۔ سن 2014 کی جنگ کے بعد غزہ کی مکینوں پر مجموی طور پر زندگی بہت بھاری اور تنگ ہو چکی ہے۔