1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غلامی کی مذمت کا عالمی دن

2 دسمبر 2010

آج دنیا بھر میں غلامی کی مذمت کا عالمی دن منايا جارہا ہے۔ جب انسانی تجارت اور محنت اور روزگار کے ميدان ميں انسانوں کے استحصال کی بات ہوتی ہے تو عام طور پر خيال ترقی پذير اور ابھرتے ہوئے صنعتی ممالک ہی کی طرف جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/QO22
گھانا میں غلام بچوں سے لی جانے والی مشقتتصویر: picture-alliance/dpa

تاہم جديد طرز کی غلامی جرمنی جيسے ترقی يافتہ صنعتی ملک ميں بھی پائی جاتی ہے۔ جرمنی ميں استحصال کے شکار زيادہ تر افراد جنسی کاروبار، ہوٹلوں اور تعميراتی صنعت ميں يا پھر گھريلو ملارمين کے شعبے ميں کام کرتے ہيں۔ ان ميں سے بہت کم ہی ايسے ہيں جو آزادی حاصل کرکے اپنے حقوق کا مطالبہ کرپاتے ہيں۔ خاص طور پر اُن ممالک سے تعلق رکھنے والے اس طرح کے ہر موقعے سے محروم ہوتے ہيں جو يورپی يونين کے باہر کے ملکوں سے يہاں آئے ہوتے ہيں۔

جرمنی کا انسداد جرائم کا وفاقی محکمہ ہر سال انسانی تجارت کی صورتحال کے بارے ميں رپورٹ جاری کرتا ہے۔ اس کے مطابق سن 2009 ميں جنسی استحصال کا شکار ہونے والے 710 افراد کا سراغ مل سکا ہے۔ ليکن يہ کوئی نہيں کہہ سکتا کہ ايسے متاثرين کی حقيقی تعداد کيا ہے جن کا سراغ نہيں لگايا جا سکا يا جو خود منظر عام پر آنے ميں کامياب نہيں ہوسکے۔ ان 710 متاثرين ميں سے 91 ايسے تھے جن کے پاس رہائش کے قانونی اجازت نامے نہيں تھے۔ ايسے افراد کی حالت اور بھی زيادہ خراب ہوتی ہے کيونکہ انہيں کسی قسم کے حقوق حاصل نہيں ہوتے اور انہيں ملک سے نکالے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔اس لئے وہ بہت کم ہی منظر عام پر آنے کی جراءت کرتے ہيں۔

Sklaverei - Kunst erinnert an Menschenhandel
یورپ میں بھی انسانوں کو غلام بنانے کی تاریخ بہت پرانی ہےتصویر: DPA

ليکن پچھلے سال سے انہيں انسانی حقوق اور جبری محنت کے انسداد کی سوسائٹی کی طرف سے مدد دی جارہی ہے۔ اُس کی کارکن ہائکے رابے کے بقول ’ ايک نوجوان لڑکی کو کوئی ايک سال تک جسم فروشی پر مجبور کيا گيا۔ مجرموں کو اب انسانی تجارت کے جرم ميں سزا ہوچکی ہے۔ يہ لڑکی اس کو پہنچنے والی اذيت کی تلافی کے لئے دو لاکھ يورو کا مطالبہ کررہی ہے‘۔

رابے نے يہ بھی کہا کہ غير قانونی طور پر جرمنی ميں رہنے والے ايسے افراد کو، جو جبر اور زيادتيوں کا نشانہ بنے ہوں اس خوف سے آزادی دلائی جانا چاہيے کہ عدالت سے رجوع کرنے پر انہيں ملک سے نکال ديا جائے گا۔ پوليس، عدالت اور تعزيراتی حکام کو متاثرين کی مدد کے قابل بنانے کے لئے اس موضوع کو ايک کھلا اور عوامی موضوع ہونا چاہئے تاکہ جرمنی ميں مجرموں کو يہ پيغام بھی ديا جاسکے کہ انہيں اُن کے جرم پر سزا دی جائے گی۔ اس کے علاوہ جبر کا نشانہ بنائے جانے والوں کو مناسب معاوضہ ملنے کا حق بھی ہونا چاہئے۔

رپورٹ: مارسل فرُسٹیناؤ/ شہاب احمد صدیقی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں