غیر زمینی مخلوق کی تلاش کے لیے دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ
3 جولائی 2016چینی دارالحکومت بیجنگ سے خبر رساں ادارے روئٹرز نے تین جولائی کو اپنی رپورٹوں میں لکھا کہ آج اتوار کے دن چینی ماہرین نے اس ریڈیائی ٹیلی سکوپ کا آخری بڑا حصہ بھی اس کے پہلے سے تیار کردہ باقی ماندہ ڈھانچے پر نصب کر دیا۔
چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق یہ ٹیلی سکوپ دنیا میں اپنی نوعیت کی آج تک تیار یا کہیں بھی نصب کردہ سب سے بڑی ٹیلی سکوپ ہو گی اور اس کا نام FAST یعنی ’تیز‘ رکھا گیا ہے، جو دراصل اس کی تکنیکی پہچان (Five-hundred-metre Aperture Spherical Telescope) کے لیے انگریزی میں استعمال کیے جانے والے الفاظ کا مخفف ہے۔
اس ٹیلی سکوپ کی جنوب مغربی چین کے اقتصادی حوالے سے غریب صوبے گُوئی ژُو میں تنصیب تقریباﹰ مکمل ہو چکی ہے اور اسے ایک پہاڑ پر ایک دائرے کی صورت میں تعمیر کیا گیا ہے۔ آج نصب کیے گئے آخری بڑے حصے کی تنصیب کے بعد ماہرین بہت جلد اس کا تجرباتی استعمال شروع کر دیں گے۔
چین کے قومی فلکیاتی مشاہداتی مرکز کے نائب صدر ژَینگ سیاؤنیان نے سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کو بتایا کہ ان کے ادارے نے یہ ٹیلی سکوپ چین کی اکیڈمی آف سائنسز کی مدد سے تیار کی ہے کیونکہ یہ مشاہداتی مرکز اسی اکیڈمی کے ماتحت کام کرتا ہے۔
شنہوا نے اپنی ایک رپورٹ میں اس ٹیلی سکوپ کی تعمیر کے اغراض و مقاصد کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کے ذریعے نہ صرف کائنات کی ابتدا کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کی جائے گی بلکہ خلائی اور فلکیاتی اجسام کے مطالعے کے ساتھ ساتھ کائنات میں پائی جانے والی ممکنہ غیر زمینی مخلوق کی تلاش کو بھی آگے بڑھایا جا سکے گا۔
چینی حکام کا دعویٰ ہے کہ مجموعی طور پر 1.2 ارب یوآن یا قریب 180 ملین امریکی ڈالر کے برابر لاگت سے تیار کردہ یہ ریڈیائی ٹیلی سکوپ کم از کم اگلے دو عشروں کے دوران دنیا بھر میں اس شعبے میں کی جانے والی تحقیق میں قائدانہ کردار ادا کرے گی۔
موجودہ چینی حکومت نے بیجنگ کے خلائی پروگرام کو اپنے لیے ایک بڑی ترجیح بنا رکھا ہے اور صدر شی جن پنگ کی بھی خواہش ہے کہ مستقبل میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس سب سے بڑے ملک کو خلائی تحقیق کے شعبے میں بھی ایک عالمی طاقت ہونا چاہیے۔
چین کے خلائی منصوبوں میں یہ بھی شامل ہے کہ بیجنگ آئندہ خلا میں ایک اسٹیشن تیار کرے گا اور سن 2036ء تک اپنے ایک خلائی مشن کو چاند پر بھی اتارنا چاہتا ہے۔ بیجنگ کی طرف سے ان منصوبوں پر کام شروع کیا جا چکا ہے۔
چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کا خلائی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ دفاع کی سوچ یہ ہے کہ بیجنگ اپنی خلائی صلاحیتوں میں جو اضافہ کر رہا ہے، اس کے ذریعے وہ مستقبل میں اہنے حریف ممالک کو اس عمل سے روکنا چاہتا ہے کہ وہ بحرانی حالات میں خلا میں اپنے اثاثوں کو استعمال میں لا سکیں۔