غیر مسلم ہم وطنوں کے ساتھ حسنِ سلوک: ’مراکش اعلامیہ‘ جاری
29 جنوری 2016اسلام میں رواداری کے موضوع پر منعقد ہونے والے اس کئی روزہ اجتماع میں مسلمان ملکوں میں اقلیتوں کی صورتِ حال کا کڑی نظر سے جائزہ لیا گیا۔ ’مسلمان ممالک میں مذہبی اقلیتیں، قانونی دائرہٴ کار اور عملی اقدامات کی اپیل‘ کے عنوان کے تحت منعقدہ اس اجتماع میں 120 شخصیات شریک ہوئیں۔ شرکاء میں سنّی بھی تھے، شیعہ بھی اور دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے بھی۔
اس اجتماع میں منظور ہونے والے مراکش اعلامیے کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان پائے جانے والے تناؤ کو ممکن ہو تو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔
اس اعلامیے کے ٹھوس مطالبات میں مسلمان علماء کی جانب سے شہریت کا خاکہ تیار کرنے، اُس خاکے کو اسلامی روایات کا حصہ بنانے، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا تاثر دینے والے مواد کو تدریسی نصاب سے خارج کرنے اور سول سوسائٹی کی جانب سے اقلیتوں کے حقوق کے لیے سرگرم ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔
جرمنی کی میونسٹر یونیورسٹی سے وابستہ اسلام سے متعلقہ امور کے ماہر مھند خورشید نے اس اعلامیے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے حوالے سے اپیلیں تو جاری ہوتی رہی ہیں لیکن اُن کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ مھند خورشید نے کہا:’’صرف اس طرح کی اپیلیں ہی کافی نہیں ہیں کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کو ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مساجد میں، دینیات کی کلاسوں میں اور یونیورسٹیوں کے مذاہب سے متعلقہ شعبوں میں عملی اقدامات بھی کیے جائیں۔‘‘
مراکش کے اسی نام کے شہر میں منعقدہ اجتماع میں فرانسیسی مسیحی عالم مشیل دوبو بھی شریک تھے، جن کے خیال میں ’مراکش اعلامیے‘ کے نتیجے میں مذہبی اور سماجی سطح پر کسی فوری تبدیلی کا امکان نہیں ہے تاہم وہ اس بارے میں ضرور پُر امید ہیں کہ یہ اعلامیہ ایک طویل عمل کا نقطہٴ آغاز ضرور ثابت ہو سکتا ہے۔
میونسٹر میں ’مذہبی علوم کے مرکز‘ میں پڑھانے والے مھند خورشید کے مطابق اقلیتوں کی جانب امتیازی سلوک کی گوناگوں وجوہات میں سیاسی عوامل بھی شامل ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ 2011ء میں مختلف عرب ملکوں میں شروع ہونے والی انقلابی تحریکوں کے نتیجے میں بھی اقلیتوں کی جانب معاندانہ طرزِ عمل میں شدت آئی ہے۔ مھند خورشید کے خیال میں یہ علماء کا فرض ہے کہ وہ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو ناجائز طور پر استعمال کیے جانے کے رجحان کے آگے بند باندھیں۔
مختلف عناصر کس طرح سے مذہب کا نام ناجائز طور پر استعمال کرتے ہیں، اس کی ایک مثال دیتے ہوئے مھند خورشید نے دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا نام لیا، جو اپنے بے رحمانہ اقدامات کے لیے مذہب کو بطور جواز پیش کرتی ہے۔ ایسے میں عام مسلمانوں اور خاص طور پر علماء کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس طرح کے بیانات کا گہری اور ناقدانہ نظر سے جائزہ لیں اور ضروری ہو تو دینیات کی کتابوں میں بھی ضروری ترامیم کریں۔
جرمنی کی میونسٹر یونیورسٹی اور قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی آج کل ایک مشترکہ منصوبے پر کام کر رہی ہیں، جس میں مصر میں رائج درسی کتابوں کا اس حوالے سے جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کہیں اُن میں مذہب کے نام پر امتیازی سلوک کا پیغام تو نہیں دیا جاتا۔
مھند خورشید نے کہا:’’وہاں بہت سی کتابوں میں ترامیم کر دی گئی ہیں۔ بہت سا مواد ایسا ہے، جسے فرسودہ ہونے اور دورِ حاضر سے مطابقت نہ رکھنے کی بناء پر خیرباد کہہ دیا گیا ہے۔ اگر آئی ایس مسلمان ملکوں میں اتنی زیادہ بے رحمی کا مظاہرہ نہ کرتی تو ایسا ہونا ناقابلِ تصور تھا۔‘‘