غیرت کے نام پر خواتین کا قتل غیر اسلامی ہے: پاکستانی علماء
6 جون 2014پاکستان علما ء کونسل (پی یو سی) کے دارلافتاء کی جانب سے جاری کیے گئے ایک فتوی میں واضح کیا گیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ظلم وبربریت پر مبنی ہیں جوکہ سخت حرام اور گناہ ہیں۔ یہ فتوٰی ایک ایسے موقع پر جاری کیا گیا ہے جب ملک میں غیرت کے نام پر قتل کی واردتوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اس فتٰوی کا مسودہ ذرائع ابلاغ کو بھی جاری کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق ایسے قتل عام طور پر شک کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں اور قاتلوں کو عموماً ان الزامات کے لیے کسی قسم کی گواہی کی ضرورت نہیں پڑتی۔
غیرت کے نام پر قتل کے خلاف فتوٰی کے مطابق "زیادہ تر اس قتل کا شکار غیر شادی شدہ خواتین ہوتی ہیں اور اگر غیر شادی شدہ عورت پر الزام ثابت بھی ہو جائے اور شرعی گواہ مل بھی جائیں تو تب بھی ان کے قتل کا حکم نہیں ہے۔"
پاکستان علماء کو نسل کے حافظ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ "جو لوگ اس عمل کو اسلامی کہتے ہیں کہ وہ بچیوں کا قتل کر کہ کہیں کہ اسلام نے اس کی اجازت دی ہے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگوں پر تین مقدمات قائم کیے جائیں ۔ایک قتل کا ،ایک فساد فی العرض کا اور ایک اسلام کے نام کو غلط استعمال کرنے کا" ۔
پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی ہونے کے باجود ہر سال سینکڑوں خواتین کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی انسانی حقوق کمشن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق صرف 2013 ء میں غیرت کے نام 869 خواتین کو قتل کر دیا گیا۔ عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنیوالی ایک تنظیم عورت فاؤنڈیزن کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں غیرت کے نام پر تین ہزار سے زائد خواتین کو قتل کیا جاچکا ہے۔
حذب اختلاف کی جماعت پیپلز پارٹی کی سینیٹر کامران سحر کا کہنا ہے کہ جب تک سختی کے ساتھ قانون پر عمل نہیں کیا جاتا ہر سال عورتیں اور لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل ہوتی رہیں گی۔"جب تک کہ قانون اتنا سخت نہیں ہوگا کہ جو لوگ اس طرح کے جرم کرتے ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ عورت ان کی ذاتی جاگیر ہے ان کے خلاف شدید ایکشن نہیں لیا جائے گا میں تو کہتی ہوں کہ ان کو سر عام سنگسار کر یں تاکہ یہ واقعات بند ہوں ۔"
خیال رہے کہ شدت پسند مذہبی عنا صر کے علاوہ بااثر وڈیرے اور جاگیردار غیرت کے نام پر قتل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کو اس وقت سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اسکی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایک وزیر اسراراللہ زہری نے بلوچستان میں پانچ خواتین کو غیرت کے نام پر زندہ درگور کرنے کے واقعے کا دفاع کیا تھا۔