فرانس شامی کیمپوں سے 55 خواتین اور بچوں کو واپس لے آیا
20 اکتوبر 2022فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے شام سے اپنے شہریوں کی واپسی کے لیے ایک نیا آپریشن کیا ہے۔ انسانی حقوق کے ججوں نے حال ہی میں شام میں زیر حراست دو خواتین کو قبول کرنے سے انکار پر فرانسیسی حکام کی مذمت کی تھی۔
فرانسیسی وزارت خارجہ نے جمعرات کو کہا کہ اس نے شمال مشرقی شام میں کردوں کے زیر انتظام حراستی کیمپوں سے درجنوں خواتین اور بچوں کو وطن واپس بلا لیا ہے۔
یہ وطن واپسی حالیہ مہینوں میں ہونے والی سب سے بڑی کارروائی ہے اور یہ یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے اُس فیصلے کے سنائے جانے کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ فرانس کو شام میں زیر حراست دو خواتین کی وطن واپسی کی درخواستوں کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔
شام: الحسکہ جیل پر 'اسلامک اسٹیٹ' کے جنگجوؤں کا حملہ
وطن واپس آنے والوں کا کیا ہو گا؟
فرانس نے کہا کہ وہ شامی کیمپوں سے اُن 40 بچوں اور 15 خواتین کو وطن واپس لے آیا ہے، جن کے خاندان کے افراد مشتبہ ہیں یا نام نہاد ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ جیسے دہشت گرد گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وزارت نے ایک بیان میں کہا،''نابالغوں کو بچوں کی امدادی خدمات کے مراکز میں منتقل کر دیا گیا ہے اور بالغوں کو عدالتی حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے۔‘‘وزارت نے مزید کہا،''فرانس مقامی حکام کا ان کے تعاون کے لیے، جن کی وجہ سے یہ آپریشن ممکن ہوا ہے، شکریہ ادا کرتا ہے۔‘‘
نام نہاد 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے سابقہ علاقوں میں رہنے والے تقریباً 300 فرانسیسی نابالغوں کی وطن واپسی میں یہ تازہ ترین اضافہ ہے۔
وطن واپسی پر فرانس کا موقف
پیرس طویل عرصے سے کردوں کے زیر انتظام کیمپوں میں قید سینکڑوں فرانسیسی بچوں کو وطن واپس لانے سے انکار کرتا آیا ہے۔ پیرس حکام اب ایک ایک انفرادی کیس کی چھان بین کر رہے ہیں، جن کے بارے میں انسانی حقوق کے گروپوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں جان بوجھ فرانس واپسی سے روکا گیا ہے۔
اسلامک اسٹیٹ کو قابو کرنے میں امریکی تعاون درکار نہیں، طالبان
گزشتہ ہفتے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے دو خواتین کو ان کے والدین کی درخواست کے بعد واپس آنے کی اجازت دینے سے انکار کرنے پر فرانسیسی حکام کی سرزنش کی تھی۔ عدالت نے حکام سے کہا کہ وہ جلد از جلد اس کیس کی دوبارہ جانچ کریں گے۔
عدالت نے 2019 میں دہشت گرد گروپ کے خلاف فوجی کارروائیوں کے خاتمے کے بعد سے شام میں قید تمام فرانسیسی شہریوں کی واپسی پر کوئی بلا استثنا حکم جاری نہیں کیا۔ تاہم عدالت کا کہنا تھا کہ کیمپوں میں حفاظت اور صحت کی دیکھ بھال کے حالات ''بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت قابل اطلاق معیارات سے مطابقت نہیں رکھتے۔‘‘
یورپ سے جانے والے جنگجو
یورپ اور مغرب کے دیگر علاقوں سے ہزاروں شدت پسند جنگجو داعش میں شامل ہوئے تھے۔ یہ اکثر اپنی بیویوں اور بچوں کو عراق اور شام میں فتح شدہ علاقوں میں خود اعلان کردہ ''خلافت‘‘ کے زیر کنٹرول علاقوں میں لے جا کر رکھتے تھے۔
یورپی ملک فرانس ان افراد کو خطرہ قرار دیتا ہے اور اس سلسلے میں فرانسیسی حکام اپنے ملک میں ہوئے جہادی حملوں کی ایک سیریز کا حوالہ دیتے ہیں۔ نومبر 2015ء میں پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
(رچرڈ کونر) ک م/ ا ا