فرانس ميں نئے اميگريشن قوانين، ملک بدريوں کی راہ ہموار
23 اپریل 2018اکسٹھ گھنٹوں پر محيط بحث و مباحثے کے بعد فرانسيسی ايوان زيريں نے ملک ميں ہجرت کے حوالے سے نئے قوانين کی منظوری دے دی ہے۔ يہ پيش رفت پير تيئس اپريل کو ہوئی۔ قومی اسمبلی ميں 228 ارکان نے نئے قوانين کے حق ميں ووٹ ڈالے جبکہ 139 نے ان قوانین کی مخالفت اور چوبيس نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہيں کيا۔ صدر امانوئل ماکروں کی ’ری پبلک آن دا موو‘ يا LREM پارٹی نے ان نئے قوانين حمایت جبکہ بائيں اور دائيں بازو کی جماعتوں نے ان کی مخالفت کی۔
اس پيش رفت کے بعد برسر اقتدار جماعت کے اسمبلی ميں گروپ کے سربراہ رچرڈ فيرانڈ نے کہا کہ نئے قانون کی منظوری ثابت کرتی ہے کہ ان کی جماعت مہاجرت کو منظم کرنے، با معنی انضمام کے فروغ اور سياسی پناہ کے حق کے احترام سميت صدر ماکروں کے بيان کردہ عزائم کے ليے پر عزم ہے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’اميگريشن کے عمل کو بہتر بنانے کے ليے اسے ريگوليٹ کرنے کا مطلب ہر گز يہ نہيں کہ ہم غير انسانی رويے کے حامل، آزادی کے خلاف يا بے پرواہ ہيں۔‘‘ يہ امر بھی اہم ہے کہ اس بل کی ابھی فرانسيسی سينيٹ سے منظوری باقی ہے۔
اميگريشن کے حوالے سے اس وسيع تر بل پر صدر ماکروں کی LREM پارٹی داخلی سطح پر تقسيم کا شکار بھی رہی۔ جماعت کے چودہ ارکان نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہ کيا جبکہ ايک نے مخالفت ميں ووٹ ڈال کر احتجاجاً استعفی بھی دے ديا۔
فرانس ميں اميگريشن کے اس نئے قانون کی ايک شق کے مطابق تارکين وطن کو ملک بدر کيے جانے سے پہلے نوے دن تک حراست ميں رکھا جا سکتا ہے۔ قبل ازيں يہ مدت پينتاليس ايام پر محيط تھی۔ علاوہ ازيں معاشی مقاصد کے ليے ہجرت کرنے والے تارکين وطن کی ملک بدری ميں دستاويزی رکاوٹيں دور کر دی گئی ہيں۔ سياسی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی کے ليے مقررہ وقت کو بھی ايک سال سے کم کر کے چھ ماہ کر ديا گيا ہے۔ نئے قوانین کے مطابق آئندہ مہاجرين کو پناہ کی درخواستوں کے خلاف اپيل صرف دو ہفتوں کے اندر اندر کرنا ہو گی۔
ع س / ش ح، نيوز ايجنسياں