1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہفرانس

فرانس میں تارکین وطن معاشرے میں ضم مگر امتیازی سلوک جاری

16 جولائی 2022

فرانس میں تارکین وطن کے معاشرتی انضمام اور ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے بارے میں دو نئے مطالعات کے نتائج سامنے آئے ہیں جن سے دو اہم رجحانات کی نشاندہی ہو رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4EEjz
Frankreich - Dschungel von Calais
تصویر: picture alliance/NurPhoto/M. Heine

فرانسیسی معاشرے میں تارکین وطن کے انضام سے منسوب تصورات کے بارے میں دو مطالعات کے نتائج سامنے آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ فرانس میں تارکین وطن کے انضمام سے متعلق دو نئے تاریخی مطالعات کروائے گئے جن کے نتائج سے ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جو اب تک اس بارے میں پائے جانے والے تصورات کے برعکس ہیں۔ فرانس میں ایمیگریشن کے حوالے سے یہ مطالعات ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب انتہائی دائیں بازو کا ''تارکین وطن بیزار‘‘ رویہ معاشرے میں سرایت کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

مطالعات کے نتائج

مذکورہ مطالعات کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ فرانس میں تارکین وطن گھرانوں کے بچے بہت تیزی سے ضم ہو رہے ہیں لیکن کچھ افریقی اور ایشیائی برادریوں کے خلاف فرانسیسی معاشرے میں امتیازی سلوک مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ کریمہ سیمو 20 سالہ مراکشی نژاد خاتون ہے۔ یہ پیرس کی مشہور یونیورسٹی ''سائنس پوُ‘‘ سے تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ فرانس کی یہ یونیورسٹی بین الاقوامی سطح پر ایک ایسے تحقیقی ادارے کے بہ طور جانی جاتی ہے، جہاں روشن خیالی اور رواداری پر مبنی معاشرتی اقدار کے فروغ کے لیے گراں قدر تحقیقی کام کیا جاتا ہے۔

فرانسیسی انتخابات میں اسلام پر تنقید کا بڑھتا ہوا رجحان

کریمہ کا تعلق ایک مزدور طبقے کے گھرانے سے ہے اور اس فیملی کے آٹھ بچے ہیں۔ کریمہ کے والد مغربی فرانس میں ایک کان کن ہے اور والدہ ایک گھریلو خاتون جنہوں نے بچوں کی پرورش کی ہے۔

کریمہ کو اس کی فیملی کی طرف سے پیرس کی اشرافیہ کی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے زور زردستی کا سامنا تھا۔ کیرمہ سیمو نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،''ایک تارک وطن خاندان کے کی حیثیت سے میرے ماں باپ نے مجھے یہی بتایا کہ مجھے معاشرے کے دوسرے افراد سے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

                       

Frankreich Schüler auf dem Schulhof in Paris Kopftuch
فرانس میں آباد تارکین وطن میں اکثریت کا تعلق جنوبی افریقی ممالک سے ہےتصویر: AP

حقیقت کیا ہے؟

فرانس میں تارکین وطن کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف لڑنے والے وکلاء نے حال ہی میں شائع ہونے والی ان مطالعاتی رپورٹوں کے نتائج کا خیر مقدم کیا ہے۔ ریاستی ادارہ برائے شماریات اور ریاستی انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموگرافک اسٹڈیز، Ined کی طرف سے شائع کردہ سروے رپورٹ ایسا قومی ڈیٹا پیش کرتی ہے جس میں فرانس جانے والے تارکین وطن کی تیسری نسل تک کی زندگی کے حال اور مستقبل کا مکمل احاطہ شامل ہے۔ یعنی فرانس میں آباد تارکین وطن کی پہلی نسل، ان کے بچے یا دوسری نسل اور اُس کے بچے یعنی تیسری نسل کے حالات زندگی اور حقائق شامل ہیں۔

یہ دراصل دس سال قبل کروائے گئے ایک ایسے ہی سروے کی تازہ ترین شکل ہے۔ اس میں 27 ہزار سے زائد افراد کی نمائندگی شامل ہے۔ ان افراد کو قومی مردم شماری کے ذریعے چنا گیا تھا۔ انہوں نے وسیع پیمانے پر کیے گئے سوالات کے جوابات دیے۔ جولائی 2019 ء سے نومبر 2020 ء کیے گئے اس سروے میں خاندانی زندگی، آمدن اور مذہب جیسے موضوعات کے بارے میں سوالات شامل تھے۔

دونوں رپورٹوں میں سے ایک سے یہ انکشاف ہوا کہ فرانسیسی آبادی کے ایک بڑے حصے کے آباؤ اجداد کا تعلق تارکین وطن گھرانوں سے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 60 سال سے کم عمر کے 32 فیصد کے بچے اور بچوں کے بچے یعنی پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں فرانسیسی معاشرے میں پوری طرح ضم ہیں۔ اس کے باوجود فرانس میں امیگریشن یا انضمام ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف سطح پر ہے۔

ریاستی ادارہ برائے شماریات اور ریاستی انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموگرافک اسٹڈیز، Ined  سے منسلک ایک محقق پیٹرک سیمون کے مطابق فرانس کی 60 سال سے کم عمر کی آبادی کے 70 فیصد کا  تارکین وطن کا پس منظر نہیں ہے۔ یہ اعداد و شمار پچھلی تین نسلوں پر مشتمل ہیں۔ مزید برآں یہ کہ فرانس میں نسلی تنوع کا دارومدار بہت زیادہ اس امر پر ہے کہ یہ باشندے فرانس کے کس علاقے میں آباد ہیں۔

’مسلمانوں اور مسیحیوں میں قربت پیدا ہوئی ہے‘

Bildgalerie Frankreich Wahlen illegale Einwanderer in Paris
پیرس میں اکثر مقامات پر غیر قانونی سیاسی پناہ کے متلاشی افراد نظر آتے ہیںتصویر: AP

جھوٹا دعویٰ

مذکورہ رپورٹ دائیں بازہ کے کچھ انتہا پسندوں کے ان دعوؤں کو جھوٹا ثابت کرنے کا سبب بنی ہے کہ فرانس اور دیگر مغربی ممالک میں غیر سفید فام آبادی مقامی سفید فام آبادی پر غالب آ رہی ہے۔ حالیہ رپورٹ اس دعوے کا قطعی متضاد مفروضہ پیش کرتی ہے۔  محقق پیٹرک سیمون کہتے ہیں،'' تارکین وطن کے پس منظر والی آبادی کا اُس آبادی سے بہت گہرا تعلق اور نسبت ہے جس کا تارکین وطن والدین سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔ سروے کے مطابق گزشتہ کئی نسلوں سے پروان چڑھنے کے دوران تارکین وطن کا ورثہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ سروے سے پتا چلا کہ 66 فیصد ایسے افراد، جن کے والدین میں سے کسی ایک کا تعلق ترک وطن کرنے والے گھرانے سے ہے، کی شادیاں ایسے افراد سے ہوئی ہیں جن کا حالیہ تارکین وطن ورثے سے کوئی تعلق نہیں۔

سروے کی رپورٹ سے مزید یہ انکشاف بھی ہوا کہ فرانس میں آباد تارکین وطن کی تیسری نسل کے خاندانوں میں سے ہر دس میں سے نو باشندوں کے زیادہ سے زیادہ 2 یا کم از کم ایک دادا دادی یا نانا نانی تارک وطن تھے۔

فرانسیسی امیگریشن کا نظام تارکین وطن کے آبائی ممالک کے ایک وسیع رینج پر محیط ہے جو اس ملک کی نوآبادیاتی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔ تارکین وطن کی نوجوان نسلوں والے میں سے زیادہ تر کا  پس منظر شمالی افریقی یا سب صحارا خطے ہیں۔

جبکہ معمرافراد میں یورپی جڑوں والے باشنوں کی تعداد زیادہ ہے۔ سروے کے مطابق فرانس میں 18 سال سے کم عمر کے افراد کے 83  فیصد ایسے باشندوں پر مشتمل ہے جن کے والدین میں سے کم از کم ایک تارک وطن والدین ہیں اور ان کا آبائی وطن خصوصاً افریقی ملک ہے۔  اس کے برعکس، ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے دوسری نسل کے تارکین وطن کا 90 فیصد ان شہریوں پو مشتمل ہے جن کے والدین اطالوی، ہسپانوی، پولش، بیلجیئین، جرمن یا دیگر یورپی ممالک سے تعلق رکھتا ہے۔

ک م/ ع ت) اے پی(