فرانس: یورپ کی پریشان حال معیشت
19 نومبر 2013عشروں تک فرانس کی حیثیت جرمنی کے ایک ایسے مضبوط ساتھی ملک کی رہی، جو اپنی سیاسی اور اقتصادی طاقت کے ساتھ ’یورپ کا صحت مند مرکز‘ کہلانے والے حصے میں جرمنی کا ہم سفر تھا۔ اب بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی سٹینڈرڈ اینڈ پورز نے مغربی یورپ کی اس ’عظیم قوم‘ کی کریڈٹ ریٹنگ میں مزید کمی کر دی ہے۔ رینکنگ کے حوالے سے اپنی ’بہترین حالت‘ سے تو فرانس گزشتہ برس ہی محروم ہو گیا تھا۔
Standard and Poor's کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ پیرس میں موجودہ سوشلسٹ حکومت کا اصلاحات کا پروگرام وسط مدتی بنیادوں پر فرانسیسی معیشت میں کسی استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب یورپ میں یہ سوال پوچھا جانے لگا ہے کہ آیا مغربی یورپ میں فرانس ’دوسرا اسپین‘ بن جائے گا۔
جرمن فرانسیسی انسٹیٹیوٹ کے ماہر اقتصادیات ہَینریک اُوٹروَیڈے کہتے ہیں، ’’فرانسیسی معیشت کی حالت خراب ہے۔ اسے شرح نمو کے بحران کا سامنا بھی ہے اور روزگار کی منڈی کے بحران کا بھی۔ ان بحرانوں کو ان صنعتوں کے زوال نے اور بھی شدید بنا دیا ہے، جن میں روزگار کے مواقع گزشتہ برسوں کے دوران ڈرامائی حد تک کم ہو چکے ہیں۔ ایسے ریاستی قرضوں کا بحران اس کے علاوہ ہے، جن میں گزشتہ ایک عشرے کے دوران بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ مشکلات کا وہ مجموعہ ہے، جس کا اس وقت پیرس حکومت کو سامنا ہے۔ اسی وجہ سے فرانسیسی حکومت کے لیے صورت حال کا جلد اور قائل کر دینے والا تدارک بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے۔‘‘
اس وقت فرانسیسی صنعتوں کو بین الاقوامی سطح پر سخت مقابلے کا سامنا ہے، بے روزگاری اتنی زیادہ ہے، جتنی پہلے کبھی نہیں تھی اور سماجی اقتصادی نظام اپنی حدوں کو چھو رہا ہے جبکہ اصلاحات کا عمل ایسا ہے کہ اس کے فوری مؤثر نتائج سامنے نہیں آ رہے۔
فرانسیسی اقتصادی جریدے Les Echos کے فرَیڈیرِیک شَیفر کی رائے میں فرانس پر بین الاقوامی اعتماد میں کمی کی بڑی وجوہات یہی غیر مؤثر اصلاحات اور بے تحاشا ریاستی قرضے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ریٹنگ ایجنسی سٹینڈرڈ اینڈ پورز نے فرانس میں گزشتہ برس صدر اولانڈ کی سربراہی میں متعارف کرائی جانے والی اصلاحات کو پرکھنے کے لیے سخت معیارات اپنائے ہیں۔ اس ادارے نے بڑی توجہ سے دیکھا ہے کہ فرانس میں کیا کچھ ہوا ہے۔ ٹیکسوں، پیشہ ورانہ خدمات اور روزگار کی منڈی جیسے شعبوں میں اصلاحات کی سمت تو درست تھی لیکن یہ اقدامات دور رس نہیں تھے۔‘‘
فرانس یورو زون کے معاہدہء ماسٹرشٹ کی یہ لازمی شرط پوری کرنے میں کئی مرتبہ ناکام رہا ہے کہ اس کے سالانہ بجٹ میں نئے قرضوں کی شرح تین فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ سال روں کے لیے یہ شرح چار فیصد سے بھی زائد بنتی ہے۔
پیرس حکومت کا ارادہ ہے کہ 2015ء سے ملکی بجٹ میں نئے ریاستی قرضوں کی یہ شرح دوبارہ کم کر کے تین فیصد سے بھی نیچے لائی جا سکے گی۔ لیکن Standard and Poor's کی رائے میں فرانسیسی حکومت کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہو گا اور ریاستی خسارے میں کمی نہیں ہو پائے گی۔
جرمن فرانسیسی انسٹیٹیوٹ کے ہَینریک اُوٹروَیڈے کے مطابق فرانسیسی سوشل سکیورٹی سسٹم کو اس وقت 25 بلین یورو کے خسارے کا سامنا ہے۔ اگر حکومت بچت کرتے ہوئے عام صارفین کے لیے عمومی سہولیات میں کمی کرتی ہے، تو صارفین کی قوت خرید کم ہو جائے گی اور داخلی اقتصادی استحکام کے لیے دراصل اسی قوت خرید میں اضافے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ فرانس میں اس وقت بے روزگاری کی شرح بھی ریکارڈ حد تک زیادہ ہے، جو قریب 11 فیصد بنتی ہے۔ روزگار کے متلاشی فرانسیسی کارکنوں میں نوجوانوں کا تناسب کافی زیادہ ہے۔ حکومت کو امید ہے کہ آئندہ برسوں میں یہ شرح کافی کم کی جا سکے گی لیکن سٹینڈرڈ اینڈ پورز کا اندازہ ہے کہ 2016ء تک فرانس میں بے روزگار کارکنوں کی شرح 10 فیصد سے زائد ہی رہے گی۔