’فرانسیسی اسکولوں میں عربی پڑھائی جائے گی‘
30 اکتوبر 2018فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے کریملن بیسیتر نامی علاقے میں زیادہ تر آبادی تارکین وطن پس منظر افراد کی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق شمالی افریقی ممالک سے ہے، جن کی مادری زبان عربی ہے۔
لسان نامی لینگوئج سینٹر کا بنیادی مقصد عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کے بچوں کو عربی زبان کی بنیادی تعلیم فراہم کرنا ہے۔ اس مرکز سے تعلیم حاصل کرنے والے بچے قرآن پڑھنے کے علاوہ عرب ممالک میں مقیم اپنے رشتہ داروں سے معمول کی گفتگو کا فن سیکھ لیتے ہیں۔
لسان لینگوئج سینٹر میں بچے ویک اینڈز، چھٹیوں کے دوران یا پھر شام کے وقت جاتے ہیں کیونکہ معمول کے اوقات میں انہیں اسکولوں میں جانا ہوتا ہے۔ اس لینگوئج سینٹر میں خواتین ٹیچرز ہیڈ اسکارف لیتی ہیں، جو دراصل فرانس کے سرکاری اسکولوں میں ممنوع ہے۔ فرانسیسی اسکولوں میں کسی بھی استاد کو کسی بھی مذہب کی علامت کی نمائش کی اجازت نہیں ہے۔
لسان کے شریک بانی عبدالغنی سیباتا نے بتایا کہ اس لینگویج سینٹر میں مذہبی تعلیم پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی اور قرآن کی کچھ آیات کا ہی درس دیا جاتا ہے۔ اے ایف پی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا، ’’مذہبی معاملات ہم نے بچوں کے والدین پر چھوڑ رکھے ہیں۔ تاہم یورپ کی مساجد میں جہاں جہاں عربی کی تعلیم دی جاتی ہے، وہاں زیادہ تر توجہ اسلامی تعلیمات پر ہی دی جاتی ہے۔‘‘
فرانس کے تھنک ٹینک مانتانی انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے حال ہی میں جاری کی گئی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ’عربی زبان کی کلاسیں دراصل اسلام پسندوں کی طرف سے نوجوانوں کو اپنی طرف بلانے کا اہم ذریعہ بن چکی ہیں‘۔ فرانس میں لبرل ادارہ تصور کیے جانے والے مانتانی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق زبان سیکھانے کا بہانہ بنا کر ان نوجوانوں کو مسجدوں اور نجی اسکولوں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تاہم اب فرانسیسی وزیر تعلیم ژاں میشل بلانکر نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اس صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کریں گے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے قریبی ساتھی بلانکر کے مطابق روسی اور چینی جیسی بڑی زبانوں کی طرح عربی کو بھی خصوصی توجہ دینا چاہیے اور اسے بھی سرکاری اسکولوں میں پڑھایا جانا چاہیے۔ ان کے بقول یوں عرب کمیونٹی معاشرے میں تنہا نہیں ہو گی، جو کہ نجی لینگوئج اسکولوں کے قیام کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
تاہم اس نئے منصوبے پر فرانسیسی وزیر تعلیم کو دائیں بازو کے حلقوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ ایسے حلقوں کے مطابق شمالی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن فرانسیسی زبان نہیں سیکھتے، جس کی وجہ سے ان کی معاشرے میں انضمام کی کوشش میں مشکلات درپیش آتی ہیں۔
سابق وزیر اعظم ژاک شیراک کے وزیر تعلیم لوک فیرے نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ موجود حکومت کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ آیا وہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ چاہتی ہے یا ان تعلیمات کو پبلک ایجوکیشن میں متعارف کرانا چاہتی ہے؟ فیرے کے مطابق اگر حکومت عربی زبان کو اسکولوں میں متعارف کرائے گی تو اس طرح انتہا پسندی اسکولوں تک پہنچ جائے گی۔