فرانسیسی صحافی کی بھارتی زیر انتظام کشمیر میں گرفتاری
11 دسمبر 2017سری نگر شہر کی پولیس کے ایک سینیئر اہلکار امتیاز اسماعیل پارے نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ فرانسیسی صحافی کے پاس بھارت کا قانونی بزنس ویزا موجود ہے لیکن اس ویزے پر اُسے دستاویزی فلم کی عکاسی کی اجازت نہیں ہے۔ پارے کے مطابق یہ گرفتاری بھارتی پاسپورٹ ایکٹ کے تحت کی گئی ہے۔ نئی دہلی میں فرانسیسی سفارت خانے کو اس صحافی کی گرفتاری کی اطلاع بھی دے دی گئی ہے۔
کشمیر:پانچ مشتبہ علیحدگی پسندوں سمیت ایک بھارتی کمانڈو ہلاک
کشمیر میں مولانا مسعود اظہر کا ’بھتیجا‘ ہلاک، بھارت کا دعویٰ
’کشمیری ماضی کی غلطیوں کا نتیجہ بھگت رہے ہیں‘
کشمیر پر بات چيت کی پیش کش ’محض فریب ہے‘
گرفتار ہونے والے فرانسیسی صحافی کا نام کومیٹ پال ایڈورڈ ہے۔ اُسے سرینگر کے کوٹھی باغ علاقے سے حراست میں لیا گیا۔ اُسے گرفتار کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ وہ بھارت میں سیاسی اور سکیورٹی معاملے پر دستاویزی فلم بنانے کے لیے مواد جمع کر رہا تھا۔
ایک اور سینیئر پولیس اہلکار نے نام مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ سری نگر میں قیام کے دوران کومیٹ پال ایڈوڈ نے علیحدگی پسند لیڈر میر واعظ عمر فاروق کے ساتھ ملاقات بھی کی تھی۔ صحافی نے ایسے متاثرین سے ملاقاتیں کی تھیں، جنہیں چھرے لگے ہوئے ہیں۔ اُس نے سری نگر میں ایک عوامی مظاہرے کے دوران لوگوں کی جانب سے پولیس پر پتھر پھینکنے کی بھی فلم بندی کی تھی۔
سرینگر پولیس کے مطابق فرانسیسی صحافی کو اُس کی سرگرمیوں کے تناظر میں تھانے میں بھی طلب کیا گیا تھا لیکن اُس نے پولیس کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا۔ پولیس حکام کے مطابق ایڈورڈ نے بھارتی وزارت دفاع سے کشمیر میں فلم شُوٹ کرنے کی درخواست کی تھی لیکن اُس کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔
رواں برس کشمیر میں بھارت مخالف شروع ہونے والی پرتشدد تحریک میں پولیس ایسی بندوقیں استعمال کر رہی ہے، جن سے نکنے والے کارتوسوں میں چھرے ہوتے ہیں۔ ان چھروں کی وجہ سے اڑتیس سو مظاہرین کے زخمی ہونے کا بتایا گیا ہے۔ ان چھروں کے لگنے سے ایک شخص کی ہلاکت بھی ہوئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک سو سے زائد افراد کی آنکھوں میں چھرے لگنے سے انہیں جزوی یا مکمل نابینائی کا سامنا ہے۔