’فرانسیسی صدر نے پیٹھ میں چھُرا گھونپا‘، جولین اسانج
19 ستمبر 2015فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسانج نے یہ باتیں اپنے ایک انٹرویو میں کہی ہیں، جو جمعے کے روز ’سوسائٹی‘ نامی جریدے میں شائع ہوا ہے۔ اس انٹرویو میں اسانج کا مزید کہنا ہے کہ فرانس کی طرف اُس کی سیاسی پناہ کی درخواست اس سال جولائی میں اعلیٰ سطح پر ہونے والے بحث مباحثے کے بعد رَد کی گئی۔
خفیہ معلومات منظرِ عام پر لانے والی وَیب سائٹ ’وکی لیکس‘ کے بانی نے اپنے اس انٹرویو میں کہا ہے:’’فرانسوا اولانڈ اور میرے درمیان براہِ راست رابطے عمل میں آئے تھے۔ میرے فرانسیسی قانونی مُشیر کی وساطت سے تحریری پیغامات کا تبادلہ ہوا۔ فرانسیسی صدر نے مجھے حوصلہ افزا اشارے دیے تھے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو اُن کا حتمی رَد عمل میرے لیے پیٹھ میں چھُرا گھونپے جانے کے مترادف تھا۔‘‘
اس انٹرویو میں اسانج نے سوال کیا کہ ’وہ کیا چیز تھی، جس کے باعث میرے ساتھ ابتدائی روابط اور حتمی فیصلے کے دوران ان کا ذہن تبدیل ہو گیا‘۔
اس حوالے سے جولین اسانج کا مزید کہنا تھا:’’شاید وہ خود کو مضبوط ظاہر کرنا چاہتے تھے، فرانسیسیوں کے سامنے نہیں بلکہ امریکا اور برطانیہ کے سامنے، جن کے ساتھ وہ خود کو وفادار دکھانا چاہتے تھے۔ اس کا ایک طریقہ یہ تھا کہ کھلے عام اس درخواست کو رَد کر دیا جاتا۔‘‘
اسانج نے 2012ء سے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے رکھی ہے کیونکہ سویڈن نے ریپ کے ایک الزام میں پوچھ گچھ کے لیے اُسے اسٹاک ہوم حکومت کے حوالے کیے جانے کی درخواست دے رکھی ہے۔ اسانج کو یہ ڈر ہے کہ سویڈن اسے لاکھوں خفیہ معلومات کو افشا کرنے کی پاداش میں آگے امریکی حکام کے حوالے کر سکتا ہے۔
اسانج کی جانب سے دی گئی پناہ کی درخواست کو رَد کرتے ہوئےفرانسوا اولانڈ کے دفتر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اسانج آج کل جن حالات میں ہیں، اُنہیں کوئی فوری خطرہ لاحق نہیں ہے اور یہ بھی کہ اُسے ایک یورپی ورانٹ گرفتاری کا سامنا ہے۔
تاحال فرانسیسی دفترِ صدارت کی جانب سے اسانج کے اس انٹرویو پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ گزشتہ مہینے سویڈش حکام نے کہا تھا کہ وہ رواں سال کے آخر تک ایکواڈور کے ساتھ عدالتی اشتراکِ عمل کا ایک سمجھوتہ طے ہو جانے کی امید کر رہے ہیں، جس کے بعد سویڈن کے پراسیکیوٹرز کے لیے اسانج سے پوچھ گچھ کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔