فرانسیسی چرچ میں دہشت گردی: یرغمالی پادری، دو حملہ آور ہلاک
26 جولائی 2016پیرس سے موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق شمالی فرانس میں نارمنڈی کے شہر کے قریب رُوئیں (Rouen) کےمقام پر آج صبح دو مسلح حملہ آوروں نے ایک چرچ میں داخل ہو کر وہاں موجود متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا۔
فرانسیسی سکیورٹی حکام نے بتایا کہ دونوں حملہ آوروں میں سے ایک نے اپنے زیر قبضہ افراد میں سے ایک، جو ایک پادری تھا، کی شہ رگ کاٹ دی تھی۔ اس پر پولیس نے، جو پہلے ہی چرچ کو اپنے گھیرے میں لے چکی تھی، فوری طور پر یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مسلح آپریشن شروع کر دیا۔ اس کارروائی کے دوران دونوں حملہ آور پولیس کی فائرنگ میں مارے گئے۔
یورپی ملک فرانس میں اسلام سے متعلق چند اہم حقائق
فرانسیسی وزارت داخلہ کے ترجمان کے بقول اس واقعے میں کلیسا میں موجود یرغمالیوں میں سے ایک بری طرح زخمی بھی ہوا، جس کا ہسپتال میں علاج کیا جا رہا ہے اور جس کی حالت انتہائی نازک ہے۔ فرانسیسی میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ مرنے والا یرغمالی ایک پادری تھا، جو اس وقت چرچ میں موجود تھا۔
پیرس میں ملکی سکیورٹی ذارئع نے بتایا ہے کہ رُوئیں کے چرچ میں یہ خونی ڈرامہ آج قبل از دوپہر ہی ختم ہو گیا تھا تاہم ابھی تک دونوں حملہ آوروں کی شناخت نہیں ہو سکی۔ یہ بات تقریباﹰ یقینی ہے کہ یہ حملہ دہشت گردی کی کارروائی ہو سکتا ہے۔
ملکی صدر اور وزیر داخلہ موقع پر
اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ اور ملکی وزیر داخلہ فوری طور پرشمالی مغربی فرانس کے اس قصبے کی طرف روانہ ہو گئے تھے تاکہ صورت حال کا ذاتی طور پر جائزہ لے سکیں اور حکام کو موقع پر ہی ضروری ہدایات دے سکیں۔
بعد ازاں ملکی وزارت داخلہ کے ترجمان نے ایک فرانسیسی نشریاتی ادارے کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ اس واقعے کی RAID نامی خصوصی تفتیشی فورس کی طرف سے چھان بین کی جا رہی ہے اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین بھی جائے وقوعہ کا جائزہ لینے کے علاوہ اس کلیسا کے اندر اور اردگرد ممکنہ طور پر نصب کردہ کسی دھماکا خیز مواد کی تلاش بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ابھی بارہ روز پہلے ہی 14 جولائی کو فرانسیسی قومی دن کے موقع پر پریڈ کے دوران نِیس کے شہر میں ایک عسکریت پسند نے اپنا ٹرک عام لوگوں کے ایک ہجوم پر چڑھا دیا تھا۔ اس حملے میں 84 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
فرانس میں پچھلے سال کیے جانے والے متعدد بڑے دہشت گردانہ حملوں کی طرح نِیس میں حملے کی ذمے داری بھی دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے قبول کر لی تھی۔ گزشتہ برس بھی فرانس میں کئی دہشت گردانہ حملوں میں مجموعی طور پر 147 افراد مارے گئے تھے۔ ان حملوں کی ذمےد اری داعش نے قبول کر لی تھی۔
دہشت گردی کا ثبوت
دیگر رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی صدر اولانڈ نے آج بعد دوپہر کہا کہ یرغمال بنائے جانے والے افراد کے مطابق رُوئیں میں چرچ پر حملہ کرنے والے دونوں شدت پسندوں نے اپنی گفتگو میں داعش کا حوالہ دیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تعلق دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے تھا۔
صدر اولانڈ نے اس حملے کو ایک ’شرمناک دہشت گردانہ کارروائی‘ قرار دیا۔ حملے کے بعد اس خونریزی کا نشانہ بننے والے کلیسا کے دورے کے بعد فرانسیسی صدر نے واضح طور پر کہا کہ یہ حملہ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی کارروائی ہے۔
پوپ کی طرف سے مذمت
اسی دوران کلیسائے روم کے سربراہ اور دنیا بھر کے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے نارمنڈی کے نواح میں ایک کلیسا پر اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ پوپ نے کہا، ’’یہ خونریز حملہ اس لیے بھی قابل مذمت ہے کہ اس دوران ایک کلیسا کو خونریزی کا نشانہ بنایا گیا، جو ایک مقدس مقام ہوتا ہے اور جہاں سے ’خدا کا محبت کا پیغام‘ لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔
مقتول پادری کی شناخت
پیرس سے آمدہ ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں بعد دوپہر بتایا گیا کہ رُوئیں کے چرچ میں متعدد مسیحی باشندوں اور کلیسائی شخصیات کو یرغمال بنا لینے والے حملہ آوروں نے جس پادری کا گلا کاٹ کر اسے قتل کر دیا، اس کی عمر 84 برس تھی اور اس کا نام فادر ژاک ہامل تھا۔
حملہ آوروں کے ہاتھوں قتل ہونے والی کلیسائی شخصیت کی پادری ژاک ہامل کے طور پر شناخت کی رُوئیں کے آرچ بشپ Dominique Lebrun نے بھی تصدیق کر دی ہے جبکہ پاپائے روم نے اس قتل کو بربریت کا نام دیا ہے۔