فرانسیسی کسانوں کا ’جنگل‘ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ
5 ستمبر 2016اس کارروائی کے تحت کیلے کے اندرونی اور بیرونی اہم راستوں کو بلاک کیا جا رہا ہے۔ اسی شہر سے چینل ٹنل کے نام سے وہ زیر سمندر سرنگ بھی شروع ہوتی ہے، جو فرانس اور برطانیہ کو آپس میں ملاتی ہے۔ مہاجر بستی’ جنگل‘ کے ان مہاجرین کی کوشش رہتی ہے کہ وہ کسی طرح یہ ٹنل عبور کر کے برطانیہ پہنچ جائیں تاہم دونوں ممالک کی جانب سے زبردست سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے یہ مہاجر اس سرنگ کے قریب تک بھی نہیں جا سکتے۔ آج ہلکی ہلکی بارش کے دوران ستر کے قریب ٹرکوں نے اے سولہ موٹر وے پر احتجاجی کارروائی شروع کی۔ یہ موٹر وے بحری جہازوں کے ذریعے آنے والے سامان اور مسافروں کے برطانیہ جانے کے لیے مرکزی شاہراہ ہے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ کسان ذرا دیر بعد اس احتجاج میں شریک ہوں گے۔
احتجاجی مظاہرےکے منتظمین کو امید تھی کہ قریب پانچ سو افراد پیر کے روز دیر سے شہر کے مرکزی سٹیڈیم میں انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر احتجاج کریں گے۔ کیلے میں کاروبار اور دکانوں کے مالکان کے نمائندے فریڈرک واں گانزبیک نے کہا،’’چونکہ ہمیں کوئی جواب نہیں ملا ہے اس لیے ہم چیزوں کو بند کر رہے ہیں۔‘‘ایک اور شخص نکولس لوٹن جو قریبی علاقے میں لاجسٹک کمپنی چلاتا ہے، کا کہنا تھا،’’ہر روز یہ فکر ہمارے سر پر سوار رہتی ہے کہ کیا ہمارا آج کا دن بھی تباہ ہو جائے گا؟ کیا آج بھی کوئی مہاجر کسی ٹرک کے نیچے کچلا جائے گا؟‘‘ لوٹن نے مزید کہا کہ اگر ترسیل کی جانے والی اشیاء کو نقصان پہنچتا ہے تو انہیں فوراﹰ متعلقہ گودام میں واپس بھیجنا ہوتا ہے۔
جنگل بستی کے پناہ گزین اکثر برطانیہ کی جانب رواں دواں ٹرکوں کی رفتار سست کرنے کے لیے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں تاکہ وہ ان ٹرکوں پر سوار ہو کر برطانیہ پہنچ سکیں جو ان کے نزدیک سونے سے بھری مالامال سرزمین ہے۔ فرانسیسی وزیر داخلہ برنارڈ کازینووا نے گزشتہ ہفتے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ جنگل کیمپ کو جلد از جلد بند کر دیا جائے گا۔ فرانس نے خیموں اور عارضی پناہ گاہوں کی اس مہاجر بستی کو بند کرنے کے لیے لگاتار کوششیں کی ہیں۔ فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ نئے آنے والے پناہ گزینوں کے بعد اس مہاجر کیمپ میں سات ہزار تارکین وطن رہائش پذیر ہیں۔ تاہم یہاں کام کرنے والے خیراتی اداروں کا کہنا ہے کہ جنگل میں مہاجرین کی تعداد دس ہزار تک ہے۔