1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرینکفرٹ کتاب میلے میں رشدی بھی، ایران کی بائیکاٹ کی دھمکی

عاصمہ علی6 اکتوبر 2015

رواں برس فرینکفرٹ کتاب میلے کے منتظمین نے اسلامی دنیا میں متنازعہ سمجھے جانے والے سلمان رشدی کو بھی مہمان مقرر کے طور پر مدعو کیا ہے، جس پر ایران نے اب اس کتاب میلے کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GjXB
Salman Rushdie Porträt 2015 Schriftsteller
تصویر: Getty Images/Neilson Barnard

سلمان رشدی ایک برطانوی شہری ہیں اور امریکا میں کسی خفیہ مقام پر رہتے ہیں۔ ان کے خلاف ایران میں جاری کیے گئے قتل کے فتوے کے باعث ان کی سکیورٹی بھی سخت ہوتی ہے اور ان کی نقل و حرکت کی تفصیلات کو بھی خفیہ رکھا جاتا ہے۔ سن انیس سو اٹھاسی میں جب سلمان رشدی کی کتاب ’سیٹَینک ورسز‘ شائع ہوئی تھی تو مسلم ممالک کے متعدد علماء کی طرف سے ان کے قتل کے فتوے جاری کر دیے گئے تھے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ خمینی اور مسلم دنیا کے دیگر علماء نے ان کے قتل کا فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ سلمان رشدی نے اپنی کتاب میں پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازعہ باتیں لکھی ہیں۔

اس فتوے نے نہ صرف رشدی کو روپوش ہونے پر مجبور کر دیا تھا بلکہ ساتھ ہی برطانوی حکومت نے ان کو پولیس کی حفاظت میں بھی دے دیا تھا۔ ویسے تو حالیہ برسوں میں سلمان رشدی نے بہت سی عوامی تقریبات میں شرکت کی ہے لیکن اب بھی وہ کبھی کبھی مختصر نوٹس پر تقریبات میں شرکت سے انکار کر دیتے ہیں۔

ایران کے نائب وزیر ثقافت عباس صالحی نے خبر رساں ادارے آئی ایس این اے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ فرینکفرٹ میں ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے کتاب میلے میں سلمان رشدی کی موجودگی کے خلاف ہیں، ’’جب ہمیں فرینکفرٹ میں ہونے والے آئندہ کتاب میلے میں سلمان رشدی کی شرکت کا علم ہوا تو ہم نے احتجاج کے طور پر ایک خط بھیجا اور دوسرے مسلم ممالک پر بھی زور دیا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔‘‘

عباس صالحی کا مزید کہنا تھا، ’’آنے والے دنوں میں ہم میلے کے منتظمین کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ اپنا فیصلہ بدل دیں۔ دوسری صورت میں ہم سنجیدگی سے اس میلے میں حصہ نہ لینے پر غور کریں گے۔‘‘

آیت اللہ خمینی کا انتقال 1989ء میں ہوا تھا لیکن ان کے جانشین اور ایران کے موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے 2005ء میں کہہ دیا تھا کہ اس برطانوی مصنف کے خلاف ’فتویٰ ابھی تک برقرار ہے، جس کے مطابق سلمان رشدی کا قتل جائز ہے‘۔