فلسطينی اتحاد کو روکنے کی اسرائيلی کوشش؟
24 مارچ 2011حماس نے اپنے دو مسلح جنگجوؤں کی موت پر اسرائيل پر درجنوں بم پھينکے۔ اسرائيل نے منگل کو غزہ ميں کم ازکم آٹھ فلسطينيوں کو ہلاک کرديا، جن ميں چار شہری بھی شامل ہيں۔ بدھ کو يروشلم ميں ايک بم دھماکے ميں کم از کم 20 افراد زخمی ہوگئے۔
تشدد اور طاقت کے استعمال کا چکر ايک بار پھر شروع ہوگيا ہے اور اسرائيل کے نائب وزير اعظم سلوان شالوم ابھی سے خبردار کررہے ہيں کہ اسرائيل، غزہ ميں حماس کی حکومت کو ہٹانے کی غرض سے خود کو ايک نيا بڑا حملہ شروع کرنے کی ضرورت پر مجبور محسوس کر سکتا ہے۔
غزہ کے علاقے ميں حالات کے ازسرنو خراب ہونے کا تعلق کم از کم بالواسطہ طور پر شمالی افريقہ اور مشرق وسطی کے واقعات سے ضرور ہے کيونکہ آزادی، سياسی امور ميں شرکت اور خوشحالی کے مطالبات غزہ کی پٹی اور دريائے اردن کے مغربی کنارے پر فلسطينی علاقوں ميں بھی پائے جاتے ہيں۔ مقبوضہ فلسطينی علاقوں ميں لاوا پک رہا ہے۔ پچھلے ہفتے غزہ اور رملّہ ميں، زيادہ تر نوجوانوں نے مظاہرے کیے ليکن اُن پر عالمی برادری نے توجہ نہيں دی۔ بعض مظاہرين نے تواپنے مطالبات پر زور دينے کے لیے بھوک ہڑتال بھی کی۔
غزہ ميں حماس اور رملّہ ميں خود مختار فلسطينی انتظاميہ نے مظاہرين کے خلاف طاقت استعمال کی۔ غزہ ميں کم از کم تين مظاہرين ہلاک ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی خود مختار انتظاميہ کے صدر محمود عباس غزہ پر حکمران حماس پارٹی سے صلح کی کوشش بھی کررہے ہيں۔ وہ حماس کے ساتھ مل کر ايک عبوری حکومت بنانا چاہتے ہيں، جو چھ مہينوں کے اندر نئے انتخابات کرا سکتی ہے۔
اس پر اسرائيل ميں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی کيونکہ اسرائيل کسی بھی صورت ميں يہ نہيں چاہتا کہ فلسطينی اپنے اختلافات دور کر کے ايک متحدہ محاذ بنا ليں۔ وہ مل کر مطالبات کريں اور ايک فلسطينی رياست کے قيام کی بھی کوشش کريں اور يہ کہ فلسطينیوں کوعالمی سطح پر تسليم کيا جائے۔
اس کو روکا صرف اس طرح جا سکتا ہے کہ تشدد کے شيطانی چکر کا دوبارہ آغاز کرديا جائے اور اس کے لیے اسرائيل کو غزہ ميں اسلامی جہاد اور حماس کے مسلح بازو ميں ہر وقت ساتھی مل سکتے ہيں۔
يہ خدشہ ہے کہ اسرائيل ليبيا، شام اور يمن کے حالات پر عالمی توجہ کے مرکوز ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی صفوں ميں اتحاد قائم کرنے کی فلسطينی کوششوں کو روک رہا ہے۔ فلسطينی اس پر مستقلاً خاموش نہيں رہ سکتے کہ يہودی آبادکار ان کی زمينوں پر قبضہ کرتے رہيں اور فلسطينی رياست کا امکان مسلسل کم ہوتا جائے۔
مغربی ممالک پر بھی ديانتدارانہ اقدام کا دباؤ ہے۔ اگر اسرائيلی سياستدانوں کے مطالبے پر، غزہ پر دو سال قبل جيسا ’’ پگھلا ہوا سيسہ ‘‘ نامی خونيں حملہ پھر شروع کيا گيا تو يہ اسرائيل کی حمايت روک دينے اور غزہ کے علاقے ميں بھی ايک نو فلائی زون قائم کرنے کا وقت ہوگا۔
تبصرہ : بيٹينا مارکس
ترجمعہ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: عدنان اسحاق