1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطینی لڑکی کا محبت سے موت تک کا سفر

4 ستمبر 2019

گھر والوں نے رشتہ دینے کے لیے ہاں بھی کر دی تھی لیکن باقاعدہ منگنی سے پہلے ہی انسٹاگرام پر پوسٹ کی گئی ایک تصویر کی وجہ سے اکیس سالہ اسراء غريب سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔

https://p.dw.com/p/3OzRb
Berlin | Solidaritätsdemo mit Israa Ghrayeb
تصویر: DW/R. Hamida

ایک نوجوان فلسطینی لڑکی کے 'غیرت کے نام پر ہونے والے قتل‘ کی وجہ سے نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ سڑکوں پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مغربی کنارے میں گزشتہ کئی دنوں سے خواتین اسراء غريب کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اسراء غريب کی ہلاکت کی وجہ انسٹاگرام پر پوسٹ کی گئی وہ تصویر بنی، جو اس نے اپنے ہونے والے منگیتر کے ساتھ پوسٹ کی تھی۔ دونوں خاندان منگنی کے لیے تیار تھے۔ اسراء کے والدین نے رشتے کے لیے ہاں بھی کر دی تھی لیکن ابھی باقاعدہ منگنی نہیں ہوئی تھی۔

اسراء ایک میک اپ آرٹسٹ تھی اور اس فیشن بلاگر کے انسٹاگرام پر بارہ ہزار سے زائد فالورز بھی تھے۔ لڑکی کی دوستوں کا کہنا ہے کہ تصویر پوسٹ کیے جانے کے بعد اس کے بھائیوں اور کزنوں نے والدین کو بتایا کہ ان کے خاندان کی 'عزت مٹی میں ملا‘ دی گئی ہے۔ گھر والوں کے کہنے پر ایک بھائی نے اسراء کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اور وہ بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے گھر کی دوسری منزل سے نیچے گر گئی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس سے اسراء کی ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچا۔

Westjordanland Ramallah | Demonstration gegen Ehrenmorde
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. Nasser

اسراء نے ہسپتال سے بھی اپنے زخموں کی تصاویر انسٹاگرام پر پوسٹ کر دیں اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ وہ ہمت نہیں ہارے گی، ''اگر مجھ میں ہمت نہ ہوتی تو میں کل ہی مر چکی ہوتی۔ اللہ قیامت کے دن ان سے پوچھے گا، جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا۔‘‘

والدین کے گھر ہلاکت

اسراء کے رشتہ داروں اور گھر والوں کو اس پر بھی غصہ آیا اور انہوں نے ہسپتال میں ہی اسے دوبارہ مارا پیٹا۔ بعدازاں اسے والدین کے گھر منتقل کر دیا گیا، جہاں وہ بائیس اگست کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کے منہ میں چلی گئی۔ اسراء کے والدین کا کہنا ہے کی وہ اس کی موت دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ہوئی لیکن انسانی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اس موقف پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اسراء کے خاندان کے تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش جاری ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کا کہنا ہے کہ فلسطین میں 'غیرت کے نام پر قتل‘ کو جرم قرار دیتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔ نہ صرف فلسطین بلکہ عرب دنیا میں غیرت کے نام پر قتل جیسے اقدامات کو روکنے کے لیے مزاحمت بڑھ رہی ہے۔ ایسے ہی احتجاجی سلسلے کے بعد لبنان نے سن دو ہزار گیارہ میں اس قانون کو ختم کر دیا تھا، جو ایسے کیسز میں نرمی پیدا کرتا تھا۔ اس کے بعد سن دو ہزار سترہ میں تیونس اور اردن نے بھی قوانین میں تبدیلی لاتے ہوئے 'غیرت کے نام پر قتل‘ کو جرم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب ایسے کیسز کی تفتیش قتل کی واردات کے قانون کے تحت کی جائے گی۔

ا ا / ع ا (اے پی، ڈی ڈبلیو)