فلسطینیوں کے ساتھ امن عمل کو آگے بڑھائیں: میرکل
1 فروری 2011جرمن چانسلر کی اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کا دورانیہ توقع سے دوگنا رہا۔ میرکل نے اسرائیلی سربراہِ حکومت پر زور دیا کہ خطے کی تناؤ سے عبارت صورتحال کے پیش نظر آئندہ چھ ماہ کے اندر اندر تعطل کے شکار امن عمل کو پھر سے آگے بڑھایا جانا چاہئے۔ میرکل نے کہا کہ خطے میں ہونے والے ہنگاموں کے بعد یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ اسلام پسند پھر سے زور پکڑ سکتے ہیں اور اِس نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے نیتن یاہو بھی اِس بات کے قائل ہو جائیں گے کہ امن عمل میں پیشرفت کی ضرورت ہے۔
جرمن وفد کے ذرائع کے مطابق اسرائیلی قائدین کے ساتھ مذاکرات ’انتہائی غیر جذباتی اور سنجیدہ‘ انداز میں عمل میں آئے۔ بعد ازاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر میرکل نے کہا:’’میرے خیال میں خاص طور پر آج کل کے حالات میں مشرقِ وُسطیٰ امن عمل بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔جرمنی نے ہمیشہ اِس دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے کہ ایک یہودی ریاست اسرائیل ہو اور ایک فلسطینی ریاست۔ ظاہر ہے، مَیں نے یہ بھی کہا ہے کہ میرے خیال میں مذاکرات کا سلسلہ فوری طور پر اور جلد از جلد بحال ہونا چاہئے۔‘‘
ساتھ ہی میرکل نے اِس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر روک دی جانی چاہئے۔ جواب میں نیتن یاہو نے کہا کہ بستیوں کی تعمیر کے معاملے پر بات چیت کسی امن سمجھوتے کے دائرے میں ہونی چاہئے اور یہ کہ فلسطینی اسرائیلی تنازعہ گزشتہ پچاس برسوں سے زائد عرصے سے موجود ہے اور اِس کا بستیوں کی تعمیر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
مصر میں آج کی عام ہڑتال اور ’ملین مارچ‘ کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں میرکل نے کہا کہ مصری بحران کے حل کے لئے مکالمت پُر امن طریقے سے عمل میں لائی جانی چاہئے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اجتماع اور اظہارِ رائے کی آزادی کا احترام کیا جائے۔
میرکل نے کہا:’’میرے خیال میں یہ مکالمت اِس بات کی بنیادی شرط ہے کہ اِس طرح کی احتجاجی تحریکوں کے نتیجے میں ایک بار پھر کوئی ایسا پُر امن اور پُر سکون عمل شروع ہو، جس میں اصلاحات کو عملی شکل دی جا سکے۔ صدر مبارک نے اصلاحات کا اعلان تو کیا ہے لیکن غالباً یہ اُس طبقے کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہیں ہے، جسے شکایات ہیں۔‘‘
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے مصر کے بحران پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ مصر میں بھی ویسے ہی حالات پیش آ سکتے ہیں، جیسے 1979ء میں ایران میں پیش آئے تھے اور شاہِ ایران کے جابرانہ نظام کی جگہ ایک اسلامی نظام نے لے لی تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ مصر میں بھی ایسے ہی حالات پیدا ہونے کے امکانات ’امن کے لیے ایک ہولناک خطرہ‘ ہیں۔
اِس دو روزہ دورے کے آغاز پر تقریباً نصف جرمن کابینہ میرکل کے ہمراہ تھی۔ اِس موقع پر اسرائیلی اور جرمن وُزراء کا ایک مشترکہ اجلاس بھی ہوا، جس کے بعد تمام جرمن وُزراء، جن میں وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے، وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر اور وزیر اقتصادیات رائنر بروڈرلے بھی شامل تھے، پیر کی شام ہی واپس جرمنی روانہ ہو گئے۔ چانسلر میرکل ابھی اسرائیل ہی میں ہیں، جہاں وہ آج منگل کو تل ابیب یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری وصول کریں گی۔ وہ آج سہ پہر واپس برلن کے لیے روانہ ہو جائیں گی۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ