فلمساز ثمر من اللہ خواتین کے لیے آواز اٹھانے کے لیے پُرعزم
20 ستمبر 2012ثمر من اللہ کا نام پاکستان میں انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے لیے آواز بلند کرنے والوں کے لیے نیا نہیں ہے۔ خواتین کے خلاف انسانیت سوز رسومات کے خلاف آواز بلند کرنے، لوگوں میں ان کے خلاف شعور اجاگر کرنے اور ان کے خاتمے کے لیے انہوں نے فلمسازی جیسے مؤثر میڈیم کو اپنی آواز بنایا۔
ثمر من اللہ نے 2003ء میں اپنی مہم کا آغاز جس دستاویزی فلم سے کیا، اس نے ملک میں خواتین کے خلاف ایک ایسی رسم کے خاتمے کے لیے قانون سازی کی راہ ہموار کی، جس کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔
خاندانی تنازعے مٹانے کے لیے کم سن بچیوں کو مخالفین سے بیاہنے کی صدیوں پرانی رسم ’سوارہ‘ یا ’ونی‘ ان بچیوں اور ان کے خاندان کو کس کرب کی نظر کر رہی ہے، اس کی عکسبندی ثمر نے اس طرح پُر اثر انداز میں کی کہ ملک کی اعلیٰ عدالت اور حکومت کی جانب سے اسے غیر انسانی رسم قرار دیتے ہوئے پاکستان میں غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔
'سوارہ‘ نامی اس ڈاکومنٹری کے حوالے سے ثمر بتاتی ہیں کہ انہوں نے سوارہ میں دی جانے والی بچیوں سے انٹرویو لیے تاکہ ان کی کہانی سے لوگوں کو آگاہ کیا جا سکے، ’’ سوات کی ایک چھوٹی بچی تھی جس کا انٹرویو کیا تھا۔ بد قسمتی سے اس کے لیے کچھ نہیں کیا جا سکا کیونکہ اسے پہلے ہی سوارہ کر دیا گیا تھا اور دشمن خاندان میں اسے دیاجا چکا تھا۔ اس بچی کی کہانی سے لوگوں کو احساس ہوا کہ یہ کتنا ظلم ہے۔ اسی طرح اس ڈاکومنٹری میں صوابی کی ایک بچی سے بھی ملوایا گیا جسے سوارہ میں دیا جانا تھا۔ لیکن اس نے کہا کہ اگر یہ کیا گیا تو وہ خود کشی کر لے گی۔ ڈاکومنٹری کے بعد وہ سوارہ ہونے سے بچ گئی۔ تو اس ڈاکومنٹری میں ایسی ہی اور خواتین سے بھی ملوایا گیا انہیں دکھایا گیا جو سوارہ میں دی جا چکی تھیں اور ان کی کہانی سے لوگوں کو بتایا گیا کہ یہ کتنی ظالمانہ رسم ہے۔ اور اس میں ایک عورت کو، ایک بچی کو کتنی تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔‘‘
حال ہی میں واشنگٹن میں انہیں Vital Voices Global Leadership Awards کی تقریب میں Fern Holland Award برائے 2012 سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ انہیں کس سلسلے میں دیا گیا اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ثمر من اللہ نے بتایا، ’’یہ ایوارڈ خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کی جانب سے مجھے دیا گیا تھا۔ 2003ء میں جب میں نے اس کام کی ابتداء کی، اس وقت ملک میں ونی یا سوارہ کے خلاف کوئی قانون نہیں تھا۔ اس ڈاکومنٹری کو بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ پالیسی میکرز کو یہ آگاہی دی جائے کہ ونی یا سوارہ ایک ظالمانہ رسم ہے، جس کو غیر قانونی قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ سلسلہ کئی برسوں سے چل رہا ہے کہ اس رسم کے خلاف، میں پورے پاکستان میں جہاں تک ممکن ہو اس پیغام کو پہنچا سکوں کہ کسی اور کے جرم کے لیے ان لڑکیوں کو سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ میری اس مہم کے باعث جو مثبت اثرات مرتب ہوئے اس کی وجہ ہے مجھے یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔‘‘
ثمر بتاتی ہیں کہ اس رسم کے خاتمے کے حوالے سے انہیں بہت سے مسائل اور مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم وہ تمام تر چیلنجز کے باوجود اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے اپنی اس مہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں، ’’ جب کسی لڑکی کا والد یا چچا اپنا جرم معاف کروانے کے لیے یا اپنی جان بچانے کے لیے اپنی بیٹی یا بچی کو سوارہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کو معلوم ہوتا ہے کہ میں پولیس یا کسی مقامی فرد کی مدد سے انہیں روکنے کی کوشش کر رہی ہوں تو وہ مجھے اس سے باز رکھنے اور ڈرانے دھمکانے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن میرے ساتھ بہت سے پولیس اہلکار شامل ہیں، جو اس پورے عمل کو ایک مقصد کی طرح سمجھتے ہیں۔ بعض دفعہ مقامی افراد، یا جرگے کے بعض لوگ یہاں تک کہ اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بعض مذہبی اسکالر بھی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اسے روکنے میں ہماری مدد کریں۔‘‘
اپنے حالیہ پراجیکٹ کے حوالے سے ثمر بتاتی ہیں کہ انہوں نے ایک نئی دستاویزی فلم بنائی ہے، جس میں بیرون ملک بسنے والی ان خواتین پر بات کی گئی ہے، جنہیں ان کے والدین اپنے ملک یا علاقوں سے تعلق برقرار رکھنے کے لیے ان کی مرضی کے برخلاف زبردستی وطن لا کر شادی کر دیتے ہیں۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: عاطف بلوچ