فن و ثقافت سے مالا مال بلوچستان، ایک خصوصی نمائش
20 نومبر 2015خصوصاً معروف بلوچ موسیقار استاد سچو خان کی پرفارمنس نے حاضرین کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔ پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان معدنیات کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بھی مالا مال ہے۔
اس صوبے کی سخت زمین کے سینے میں ہزاروں سال کی تاریخ دفن ہے۔ یہاں قبل مسیح کی تہذیب و تمدن کے اثرات بھی ملتے ہیں اور اسی سرزمین سے ڈائناسور کے ڈھانچے اور ہڈیاں بھی دریافت کی جا چکی ہیں۔
حکومت سندھ کے محکمہٴ ثقافت اور جرمن قونصل خانے کے اشتراک سے سجائی گئی اس تاریخی نمائش میں جرمنی سے آنے والے ماہرینِ آثار قدیمہ کی ایک ٹیم نے بھی خصوصی شرکت کی۔
نمائش میں پاکستان کے صوبہٴ بلوچستان سے ملنے والے قیمتی نوادرات بھی رکھے گئے۔ یہ وہی نوادرات ہیں، جنہیں محکمہ کسٹمز نے 2005ء میں بیرون ملک اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی تھی اور پھر ان نوادارت کو محکمہٴ آثارِ قدیمہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
بلوچستان کی قدیم تہذیب کی عکاسی کرتے یہ نوادرات 4000 قبل مسیح تک پرانے ہیں۔ اس نمائش کا افتتاح وزیر اعلٰی سندھ کی مشیر برائے ثقافت شرمیلا فاروقی نے کیا جبکہ کراچی میں متعین جرمن قونصل جنرل رائنر شمیدشن بھی اس موقع پر موجود تھے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے قونصل جنرل نے کہا کہ بلوچستان سے ملنے والے ان نوادرات پر اب تک انگلیوں کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں جو کہ ایک منفرد بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی نمائش منعقد کر کے دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کی تہذیب کو جاننے کا موقع ملے گا اور دنیا بھر میں پاکستان کا ایک بہتر تاثر سامنے آئے گا۔
مشیر ثقافت شرمیلا فاروقی کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے ملنے والے بارہ سو سے زائد نوادرات اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ یہ خطہ تہذیب و تمدن کے حوالے سے مالا مال رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’ہم چاہتے ہیں کہ عوام اس تاریخی ورثے سے واقف ہوں اور اسی لیے نمائش کا اہتمام کیا گیا‘۔ انہوں برلن سے آنے والی ڈاکٹر اوتے فرانکے اور ان کی ٹیم کا بھی خصوصی شکریہ بھی ادا کیا جنہوں نے اس تاریخی ورثے کو محفوظ بنانے میں تعاون کیا ہے۔
نمائش کے بعد نیشنل میوزیم کے احاطے میں بلوچ ثقافت اور روایتی موسیقی کی محفل سجائی گئی جس میں ڈیرہ بگٹی خان سے تعلق رکھنے والے استاد سچو خان نے بھی پر فارم کیا۔
سچو خان نے اپنی مدھر آواز اور روایتی انداز میں بلوچی زبان کے کئی مقبول نغمے گائے جنہیں حاضرین نے بہت پسند کیا۔ کراچی کی نومبر کی کم سردی میں میوزیم کے سبزہ زار پر بھی سچو خان نے کچھ دیر کے لیے ماحول گرما دیا اور کئی حاضرین پر روایتی بلوچی موسیقی کا سحر طاری ہو گیا۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سچو خان کی آواز میں گائے گئے ہر نغمے سے نہ صرف بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوتے رہے بلکہ کئی حاضرین تو ناچنے پر بھی مجبور ہو گئے۔