فوجی افسران کی پریس کانفرنس تبصروں اور تجزیوں کی زد میں
27 اکتوبر 2022کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ پریس کانفرنس پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک سخت پیغام ہے جبکہ کچھ کے خیال میں یہ سیاسی بے یقینی کی کوششوں کے خلاف ایک پیغام ہے۔ کچھ حلقے اس پریس کانفرنس کو 'غیر معمولی‘ بھی قرار دے رہے ہیں کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی حاضر سروس ڈی جی آئی ایس آئی اس طرح کوئی پریس کانفرنس کرے۔
آج کی پریس کانفرنس میں آرمی کے دونوں سینئر افسران نے نہ صرف ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے بات چیت کی بلکہ انہوں نے تحریک انصاف کا نام لیے بغیر بہت سارے ایسے معاملات پر بھی بات کی، جس کے حوالے سے تحریک انصاف نے عوامی جلسے اور جلوسوں میں کئی سوالات اٹھائے تھے یا دعوے کیے تھے۔
ارشد شریف کے حوالے سے نکات
معروف صحافی ارشد شریف کی موت کے حوالے سے بابر افتخار کا دعوی تھا کہ اس واقعے میں کوئی تیسرا فریق بھی ملوث ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ارشد شریف سے متعلق اطلاعات ہیں لیکن ابھی سامنے نہیں رکھ رہے۔ بابر افتخار نے مزید کہا کہ اس حوالے سے، جو اطلاعات بڑے وثوق سے شیئر کر سکتے تھے، وہ شیئر کر دیں لیکن وہ تحقیقات کے بغیر کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ارشد شریف ان سے اور ادارے کے لوگوں سے رابطے میں تھے اور یہ کہ مرحوم صحافی نے ان سے یا ادارے میں کسی سے بھی تھریٹ کی بات نہیں کی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جب خیبرپختونخوا حکومت نے تھریٹ الرٹ جاری کیا تو ہماری تحقیق کے مطابق ایسا کچھ نہیں تھا۔
ارشد شریف کی ہلاکت، تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے گا، شہباز شریف
صحافی ارشد شریف کا مبینہ قتل، ملک بھر میں سوگ کی فضا
ڈی جی آئی ایس آئی کا نقطہء نظر
اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ ادارے پر غیر ضروری طور پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئیں جبکہ غیر سیاسی رہنا کسی فرد کا نہیں ادارے کا فیصلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج کی سازش سے جوڑ دیا گیا۔ فوج کو 'میر جعفر، جانور اور نیوٹرل‘ اس وقت کہا گیا، جب انہوں نے غیر قانونی کاموں سے انکار کیا، ''میں اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں۔ ہم پر مارچ کے مہینے سے بڑا دباؤ ہے۔ آرمی چیف کو غیر معینہ مدت تک لے لیے توسیع کی پیش کش کی گئی۔ اگر جنرل باجوہ غدار تھے تو پہلے تعریفیں کیوں کی گئیں؟ جو کچھ آرمی چیف نے کہا وہ بالکل درست تھا۔ آئینی راستہ اختیار نہ کرنا سیاسی عدم استحکام کی ایک وجہ ہے۔‘‘
ندیم انجم کے مطابق وہ احتجاج یا مارچ کے خلاف نہیں ہیں لیکن جب زیادہ لوگ ہوتے ہیں تو خطرہ پیدا ہو سکتا ہے اور سکیورٹی فراہم کرنا فوج کی ذمہ داری ہے۔ دونوں فوجی افسران نے سائفر، پاکستانی صحافت اور دوسرے موضوعات پر بھی بات کی۔
ارشد شریف کی موت اور فوج مخالف پروپیگنڈہ
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ ارشد شریف کی موت کے بعد فوج کے خلاف ایک بھیانک پروپیگنڈہ شروع کیا گیا۔ دفاعی مبصر جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفی کے مطابق یہ پریس کانفرنس اس پروپیگنڈے کے خلاف تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''فوج نے مناسب سمجھا کہ اس پروپیگنڈے کا مناسب جواب دیا جائے اور موثر انداز میں ان لوگوں کو یہ واضح پیغام دیا جائے، جو اس طرح کے پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ اس طرح کی جھوٹی خبریں اور اور بے بنیاد الزامات کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘
واضح رہے کہ ارشد شریف کی موت کے بعد ناصرف ملکی سطح پر صحافتی اور غیر صحافتی تنظیموں نے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے بلکہ اس طرح کے مطالبات امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے بھی سامنے آئے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے سابق گورنر خیبرپختونخوا اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کی موت کے بعد سر اٹھانے والے بے بنیاد پروپیگنڈہ کا جواب دینا بہت ضروری تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ پروپیگنڈا صرف ملکی سطح پر ہی نہیں کیا گیا بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ پروپیگنڈہ کیا گیا، جس سے ملک کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ رہا تھا اور فوج پر بھی دشنام طرازی کی جا رہی تھی۔ تو یہ ضروری تھا کہ اس حوالے سے ایک واضح اور سخت پیغام دیا جائے۔‘‘
پی ٹی آئی اور فوج میں فاصلے
پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اسے ماضی میں فوج کی حمایت حاصل رہی ہے۔ لیکن آج کی پریس کانفرنس کے بعد کئی ناقدین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے مزید پڑھیں گے۔ جنرل غلام مصطفی کے مطابق آج کی پریس کانفرنس اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں، '' اور اب بھی اگر پی ٹی آئی نے مارچ کیا تو ممکنہ طور پر پر خلیج مزید بڑھ جائے گی۔ فوج کو یہ بھی خدشہ ہے کہ جب بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوں گے تو اس میں ضروری نہیں کہ پی ٹی آئی کے لوگ ہی کوئی گڑ بڑ کریں، ملک دشمن عناصر بھی گڑ بڑکر سکتے ہیں۔‘‘
فوج کی تشویش
اقبال ظفر جھگڑا کے مطابق کیوں کہ سیاسی حالات کا معیشت پر گہرا اثر ہوتا ہے اور آج کے دور میں معیشت اور سکیورٹی کو علیحدہ علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، ''اس لیے کسی ممکنہ سیاسی بے یقینی کے حوالے سے فوج کی تشویش بالکل بجا ہے۔ لہذا فوج نے اس حوالے سے بڑا واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ اور حکومت کسی بھی طرح کی سیاسی بے یقینی یا سیاسی عدم استحکام کو برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
معروف تجزیہ نگار اور مصنفہ عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ممکنہ سیاسی عدم استحکام پر صرف فوج کو ہی نہیں امریکہ کو بھی بہت تشویش ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال ہے کہ فوج واقعی ملک میں عدم استحکام اس وقت نہیں چاہتی کیونکہ ایسی کسی صورت حال پر بیرونی دنیا کو بھی سخت تشویش ہو گی، جو پاکستان کے لیے بہتر نہیں ہو گا۔ اس لئے فوج نہیں چاہتی کہ عمران خان ملک میں افراتفری یا عدم استحکام پھیلائیں۔‘‘
بیانیے کا مقابلہ
عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کرپشن بیانیے کو فروغ دیا، جو بہت مقبول ہوا، ''لیکن اب انہوں نے یہ بیانیہ بھی مقبول عام کر دیا ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔ پچپن فیصد سے زیادہ پاکستانی، جن کی عمر اٹھارہ اور پینتیس کے درمیان ہے، اس بیانیے کو درست سمجھتے ہیں اور اس سے فوج کو تشویش ہے۔ آج کی پریس کانفرنس اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے بھی تھی کہ فوج سیاست میں ملوث ہے۔‘‘
مارچ پر اثر انداز ہونے کی کوشش
پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق مشیر برائے فوڈ سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ یہ پریس کانفرنس پی ٹی آئی کے مارچ پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پہلے رانا ثناء اللہ سے ہمیں دھمکیاں دلوائی گئیں۔ پھر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کرائی گئی، اب یہ پریس کانفرنس کی گئی ہے تاکہ مارچ پر اثر انداز ہوا جائے۔‘‘
جمشید اقبال چیمہ کا کہنا تھا، '' عوام بہت باشعور ہیں اور وہ کسی کی دھونس اور دھمکی میں نہیں آئیں گے۔ میرے خیال میں اس پریس کانفرنس سے مارچ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور عوام بہت بڑی تعداد میں اسلام آباد پہنچے گے۔‘‘