1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوجی افسروں کے لیے پچاس فیصد چھوٹ: پاکستان میں زیربحث

عبدالستار، اسلام آباد
1 فروری 2022

پاکستان کے انگریزی روزنامے بزنس ریکارڈر کی اس خبر پر کئی حلقوں میں بحث ہو رہی ہے کہ پاکستان کی وزارت دفاع کی طرف سے کمیشنڈ فوجی افسران کے بجلی کے بلوں میں پچاس فیصد کی چھوٹ دی جائے۔

https://p.dw.com/p/46NaC
Pakistan | Militärparade zum Nationalfeiertag
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture-alliance

ملک کے کئی حلقے اس چھوٹ کا دفاع کر رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں فوج کے افسران اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کے ملک کے دفاع میں مصروف ہیں جبکہ کچھ حلقے اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ جبکہ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ فوج کے حوالے سے جب بھی کوئی خبر آتی ہے تو اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جب کہ سیاستدان، وزراء،  مشیر اور افسر شاہی کے افراد کوملنے والی مراعات اور سہولیات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

یوم پاکستان کی مناسبت سے فوجی پریڈ، تعریف بھی جاری اور تنقید بھی

جنرل باجوہ صاحب آپ کو جواب دینا پڑے گا، نواز شریف

اس خبر کو بعد میں فرائیڈے ٹائمز نے بھی جگہ دی، جہاں فوج کے ناقد تجزیہ نگار نجم سیٹھی بھی کالم لکھتے ہیں۔ اس خبر کی گونج ملک کے کئی حلقوں تک پہنچ گئی اور یہاں تک کہ ملک کے ایوان بالا میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان، جو آرمی پر تنیقد کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، نے بھی اس حوالے سے متعلقہ وزیر سے سوال کر ڈالا۔

انہوں نے سوال میں پوچھا  کہ کیا یہ بات صحیح ہے کہ جی ایچ کیو نے مطالبہ کیا ہے کہ کمیشنڈ فوجی افسران کے لیے بجلی کے بلوں میں پچاس فیصد چھوٹ دی جائے۔ مشتاق احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو مختصر بات چیت کے دوران بتایا کہ انہوں نے یہ سوال متعلقہ وزیرسے کیا تھا، جن کو وہ سدا بہار وزیر کہتے ہیں، لیکن ان کا کوئی جواب نہیں آیا اور متعلقہ وزیر کا کہنا تھا کہ انہیں اس حوالے سے کوئی اطلاع نہیں ہے۔

تاہم روزنامہ بزنس ریکارڈر نے اپنی ایک رپورٹ میں جو 31 جنوری کو اس کی ویب سائٹ پر اپلوڈ ہوئی میں یہ لکھا کہ فوجی افسران کو پچاس فیصد چھوٹ بجلی کے بلوں میں نہیں مل رہی۔ تاہم اخبار نے اس بات کی وضاحت کی کہ وزارت دفاع نے اس حوالے سے جو سمری نیپرا کو بھیجی ہے وہ نئی نہیں ہے۔ اخبار کو کچھ ذرائع نے بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ آرمی کے افسران کو حکومتی احکامات کی روشنی میں انیس سو نوے کی دہائی میں پچاس فیصد چھوٹ دی جارہی تھی، جو اب 3.5 فیصد رہ گئی ہے۔ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ چھوٹ پورے بجلی کے بل پر نہیں تھی بلکہ 90 کی دہائی میں یہ صرف بجلی استعمال کرنے کی قیمت پر تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سارے سر چارجز اور ٹیکسز لگ گئے جس سے یہ شرح اب تقریبا تین اعشاریہ پانچ فیصد ہو کے رہ گئی ہے۔‘‘

طورتک کا محل جو کبھی پاکستانی فوج کا مرکز تھا

اخبار نے لکھا کہ سن دو ہزار سے آرمی افسران کو 3.5 فیصد چھوٹ مل رہی ہے جبکہ حکومت نے 90 کی دہائی میں وعدہ کیا تھا کہ یہ چھوٹ پچاس فیصد ہوگی۔ بزنس ریکارڈر نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا 2018 میں وزارت دفاع سے کہا گیا تھا کہ وہ انیس سو نوے کی ریگولیشن کی روشنی میں پالیسی فریم کرے اور یہ کہ وزارت دفاع نے نیپرا سے رائے اب طلب کی ہے۔‘‘

تاہم اس وضاحت سے پہلے ملک کے کئی حلقوں میں اس مسئلے پر بحث چھڑ گئی اور کچھ یوٹیوب چینلز نے اس حوالے سے پروگرام بھی کر ڈالے۔ اس رعایت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ فوج پاکستان کے لیے بے پناہ قربانیاں دیتی رہی تو اس کی مراعات پر اس طرح تنقید کرنا مناسب نہیں جبکہ پارلیمنٹیرینز کو ہوائی جہاز کے ٹکٹ ان کی فیملی کے لیے بہت ساری مراعات  ملتی ہیں۔ ان کی تنخواہیں اور ان کی سہولیات فوجی افسران سے کئی زیادہ ہیں۔ اسی طرح افسر شاہی کو بھی بہت ساری مراعات ملتی ہیں۔

افسر شاہی کی سہولیات کا تذکرہ کرتے ہوئے سابق سیکریٹری پلاننگ فضل اللہ قریشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں فیڈرل سیکرٹری کو اسلام آباد میں ایک پلاٹ مل جاتا ہے اس کے علاوہ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن سی بھی پلاٹ مل سکتا ہے۔ شہباز شریف کے دور میں سیکریٹریٹ کے ملازمین کے لیے مراعات کا اعلان کیا گیا۔ ان کی تنخواہ بھی زیادہ تھی اور انہیں بہت ساری سہولیات بھی دی گئیں اس کے بعد میں یہ روایت سندھ میں بھی قائم ہوگئی۔‘‘

 ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی روایتوں سے بیوروکریسی میں لالچ خود غرضی اور جھوٹ بڑھا ہے۔ ''آپ پولیس فاؤنڈیشن کا کیس دیکھ لیں جہاں  پر اعلیٰ افسران نے کئی کئی پلاٹ لیے اور حکومت سے جھوٹ بولا۔ اس طرح کی مراعات نے افسران کی کارکردگی کو متاثر کیا اور معاشرے میں کرپشن بھی بڑھی۔