اسرائیلی فوج میں بھرتی، عدالتی فیصلہ حکومت کے لیے نیا خطرہ
25 جون 2024یروشلم سے منگل 25 جون کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملکی سپریم کورٹ نے آج ایک مقدمے میں متفقہ طور پر یہ تاریخ ساز فیصلہ سنایا کہ اسرائیل کی فوج کو اپنی صفوں میں انتہائی کٹر مذہبی نظریات کے حامل الٹرا آرتھوڈوکس یہودی شہریوں کی بھرتی بھی شروع کر دینا چاہیے۔
اسرائیل میں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی موجودہ مخلوط حکومت غیر معمولی حد تک دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے اور اس میں انتہائی قدامت پسند یہودیوں اور خاص طور پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادی کار میں اضافے کی حامی جماعتیں بھی شامل ہیں۔
فوجی سروس لازمی بنانے کے خلاف الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کا احتجاج
اسرائیل میں گزشتہ کئی عشروں سے الٹرا آرتھوڈوکس یہودی شہری ملکی فوج میں مذہبی بنیادوں پر بھرتی کے خلاف رہے ہیں اور انہیں فوجی سروس سے استثنا حاصل رہا ہے۔ ایسے ہی یہودی شہریوں کی نمائندہ سیاسی جماعتیں موجودہ مخلوط حکومت میں بھی شامل ہیں اور وہ بھی ایک ایسے وقت پر جب اسرائیل کی حماس کے خلاف غزہ میں جنگ بھی گزشتہ کئی مہینوں سے جاری ہے۔
نیتن یاہو حکومت ختم بھی ہو سکتی ہے
اسرائیلی سپریم کورٹ نے ملکی فوج میں الٹرا آرتھوڈوکس یہودی شہریوں کی بھرتی سے متعلق جو حکم آج منگل کے روز سنایا، وہ پچھلی کئی دہائیوں کے دوران اسرائیلی سیاست اور مسلح افواج میں بھرتی سے متعلق عملی طریقہ کار سے مطابقت نہیں رکھتا۔
رفح آپریشن میں شدت اختتام کے قریب ہے، اسرائیلی وزیر اعظم
اس عدالتی فیصلے سے الٹرا آرتھوڈوکس یہودی آبادی خوش نہیں ہے اور اس وجہ سے اگر ان کی سوچ کی نمائندگی کرنے والی جماعتوں نے وزیر اعظم نیتن یاہو کی موجودہ حکومت کے لیے اپنی حمایت واپس لے لی تو یہ حکومت زوال کا شکار بھی ہو سکتی ہے۔
یہ پہلو اسرائیلی سربراہ حکومت کے لیے اس وجہ سے بھی ایک نیا درد سر ہے کہ وہ تو پہلے ہی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا کر رہے ہیں اور غزہ پٹی میں اسرائیل حماس کے خلاف جنگ میں بھی گزشتہ برس اکتوبر سے مصروف ہے۔
الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کو حاصل استثنا امتیازی ہے
اسرائیل میں سماجی سطح پر الٹرا آرتھوڈوکس یہودی شہریوں کا فوج میں بھرتی نہ ہونا اس وجہ سے سماجی طور پر غیر منصفانہ اور امتیازی سمجھا جاتا ہے کہ انتہائی کٹر مذہبی نظریات کے حامل ایسے شہریوں کو تو فوج میں لازمی سروس سے چھوٹ مل جاتی ہے جبکہ باقی ماندہ اسرائیلی معاشرے میں زیادہ تر سیکولر سوچ کے حامل شہریوں کو لازمی طور پر فوجی خدمات انجام دینا پڑتی ہیں۔
اسرائیلی حملوں نے غزہ میں خاندانوں کے خاندان مٹا دیے
ملکی سپریم کورٹ نے اپنے آج کے فیصلے میں اسی امتیازی سلوک کے خاتمے کا حکم دیا ہے اور متفقہ طور پر فوجی قیادت کو یہ کہا کہ وہ اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) میں الٹرا آرتھوڈوکس یہودی شہریوں کو بھی بھرتی کرے۔
اس فیصلے سے اسرائیلی سپریم کورٹ نے ملک میں جاری یہ بحث بھی ایک طرح سے ختم کر دی ہے کہ جب تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں تو ان کے فرائض بھی برابر ہونا چاہییں اور ملک کی حفاظت کی ذمے داری صرف سیکولر سوچ کے حامل شہریوں پر ہی کیوں ڈالی جائے؟
اپنے اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے آج اس ملکی قانون کو بھی منسوخ کر دیا، جس کے تحت 2017ء سے الٹرا آرتھوڈوکس یہودی شہریوں کو ایک خاص طریقہ کار کے تحت فوجی بھرتیوں سے استثنا دے دیا جاتا تھا۔
اسرائیلی فوج کے حملے جاری، غزہ جنگ خطے میں پھیلنے کے خدشات
ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل میں لازمی فوج سروس کے قانون کا اطلاق تمام شہریوں پر ہوتا ہے اور ان میں الٹرا آرتھوڈوکس یہودی شہری بھی شامل ہیں۔
وزیر اعظم نیتن یاہو کے لیے اب سیاسی مشکل یہ ہے کہ ان کی حکومت میں شامل اور سیاسی طور پر اس وقت بہت طاقت ور الٹرا آرتھوڈوکس پارٹیاں فوجی بھرتیوں سے متعلق موجودہ نظام میں کسی بھی تبدیلی کے خلاف ہیں۔
م م / ش ر، ر ب (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)