1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوجی سربراہ نئے تھائی وزیراعظم منتخب

عدنان اسحاق21 اگست 2014

تھائی لینڈ میں کاروبار حکومت فوجی سربراہ پرَایُت چَان اُوچَا کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ فوج کی جانب سے بنائی جانے والی قانون ساز اسمبلی نے انہیں عبوری وزیراعظم منتخب کیا۔

https://p.dw.com/p/1CyYF
تصویر: Reuters

بنکاک میں ہونے والے ایک اجلاس میں پرَایُت چَان اُوچَا اس عہدے کے لیے واحد امیدوار تھے۔ ان کے اصلاحاتی منصوبے کے مطابق ملک میں عام انتخابات اگلے برس اکتوبر سے پہلے نہیں ہو سکتے۔ اس موقع پر اوچا نے کہا کہ تھائی بادشاہ کی منظوری کے بعد ہی وہ اس عہدے پر فائز ہوں گے اور اُس وقت تک وہ صرف ملکی فوج کے سربراہ رہیں گے۔

تھائی لینڈ کی فوج نے ملک میں جاری ہنگاموں اور ایک طویل سیاسی بحران کے بعد رواں برس 22 مئی کو اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے مابین ہونے والی رسہ کشی میں کم از کم تیس افراد ہلاک اور کئی سو زخمی ہوئے تھے۔ تھائی مسلح افواج کی جانب سے ملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ تھائی لینڈ میں 1932ء میں آئینی بادشاہت قائم ہونے کے بعد سے اب تک اٹھارہ بغاوتیں یا بغاوت کی کوششیں ہو چکی ہیں۔

ساٹھ سالہ اوچا کی فوجی سربراہ کے عہدے کی میعاد اگلے مہینے پوری ہو رہی ہے۔ قانون ساز اسملبی کے اس فیصلے کی تھائی بادشاہ بھومی بول اولیاج کی جانب سے توثیق لازمی ہے، جس میں شاید ایک ہفتہ لگ جائے۔ اس کے بعد عبوری وزیراعظم اوچا 35 رکنی کابینہ کا اعلان کریں گے۔ تھائی لینڈ میں مارشل لاء کے بعد فوج نے 48 شقوں پر مبنی ایک عارضی آئین پر عمل درآمد شروع کیا تھا، جس کے فوراً بعد فوجی جنتا نے ایک اسمبلی بنائی۔ اس ادارے کے اراکین میں زیادہ تر فوج کے حاضر یا ریٹائر افسران ہیں۔

Yingluck Shinawatra
بغاوت کے بعد تھائی لینڈ کی سابق وزیراعظم ینگ لک شناواترا سمیت اُن کی جماعت کے زیادہ تر سیاستدانوں کو فوج نے تھوڑے عرصے کے لیے حراست میں لیا تھاتصویر: AP

پرَایُت چَان اُوچَا نے جمہوریت کی بحالی اور 2015ء کے اوائل میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک فوجی جنتا ملکی عوام پر سابق وزیراعظم تھاکسن شناواترا کے اثر و رسوخ کو ختم نہیں کر دیتی اس وقت تک فوج ہی اقتدار میں رہے گی۔

بغاوت کے بعد تھائی لینڈ کی سابق وزیراعظم ینگ لک شناواترا سمیت اُن کی جماعت کے زیادہ تر سیاستدانوں کو فوج نے تھوڑے عرصے کے لیے حراست میں لیا تھا۔ تاہم ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ان کی رہائی ممکن ہوئی تھی۔ اس معاہدے کی رُو سے یہ لوگ کسی قسم کا بیان نہیں دے سکتے اور خلاف ورزی کرنے پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ تھائی لینڈ پہلے ہی سیاسی طور پر تقسیم ہو چکا ہے اور خوف کے ماحول میں مصالحت ناممکن ہے۔ تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت پر مغربی ممالک نے تو شدید تنقید کی تھی جبکہ مارشل لاء کے بعد ایشیائی ممالک اور تھائی لینڈ کے باہمی تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔

تھائی لینڈ 2006ء میں سابق وزیراعظم تھاکسن شناواترا کی حکومت کے ختم کیے جانے کے بعد سے شدید سیاسی بحران کا شکار ہے۔ ینگ لک شناوترا کے بھائی تھاکسن کو بدعنوانی، طاقت کے ناجائز استعمال اور بادشاہ کی عزت و تکریم نہ کرنے کی وجہ سے وزارت عظمٰی کے منصب سے ہٹا دیا گیا تھا۔