فوجی مشقوں میں ’دشمن‘ اتاترک، ایردوآن: نیٹو نے معافی مانگ لی
18 نومبر 2017ترک دارالحکومت انقرہ سے ہفتہ اٹھارہ نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ان اطلاعات کے بعد نیٹو اور ترکی کے مابین اچانک کشیدگی پیدا ہو گئی تھی کہ شمالی یورپی ملک ناروے میں جمعہ سترہ نومبر کو ہونے والی مغربی دفاعی اتحاد کی فوجی مشقوں میں جدید ترک جمہوریہ کے بانی مصطفےٰ کمال اتاترک اور ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب ایردوآن کو ’دشمنوں‘ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
ایردوآن ترکی کو ’فاشزم‘ کی جانب لے جا رہے ہیں، یوچیل
ترکی نے پاکستانیوں سمیت 310 مہاجرین یونان جانے سے روک دیے
ترک عدالت کا انسانی حقوق کے آٹھ کارکنوں کی رہائی کا حکم
یہ مشترکہ عسکری مشقیں ناروے میں ستاوانگیر کے شہر میں قائم نیٹو کے ’مشترکہ جنگی مرکز‘ میں کی گئی تھیں۔ ان رپورٹوں کے بعد کہ ان مشقوں میں فرضی دشمن اتاترک اور موجودہ ترک صدر ایردوآن کو بنایا گیا تھا، ترک حکومت نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے نہ صرف نیٹو پر شدید تنقید کی تھی بلکہ ساتھ ہی ان مشقوں میں شامل اپنے چالیس فوجی بھی واپس بلا لیے تھے۔
اس واقعے کے بعد ترک صدر ایردوآن نے انقرہ میں حکمران اپنی سیاسی جماعت کے صوبائی رہنماؤں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’اس طرح نہ تو کوئی اتحاد قائم رہ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی مشترکہ عسکری تنظیم۔‘‘
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس واقعے کی اصل تفصیلات کافی مبہم ہیں لیکن ترک صدر ایردوآن کے بقول ان فوجی مشقوں کے دوران ’دشمنوں کا جو چارٹ‘ بنایا گیا تھا، اس میں کمال اتاترک کی تصویر بھی تھی اور خود ایردوآن کا اپنا نام بھی۔
ترکی، آٹھ ترقی پذیر اسلامک ممالک کی تنظیم کا سربراہ
پاکستان سے ملک بدر ہونے والا ترک استاد ترکی میں گرفتار
بعد ازاں اس واقعے کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا کہ جس اہلکار نے ان فوجی مشقوں کے دوران فرضی دشمنوں کا تعین کرتے ہوئے متعلقہ چارٹ میں یہ مواد شامل کیا تھا، وہ ناروے ہی کا ایک ایسا سول کنٹریکٹر اہلکار تھا، جسے ان مشقوں کے لیے اوسلو حکومت نے شامل کیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ یہ کنٹریکٹر خود نیٹو کا اپنا کوئی اہلکار نہیں ہے۔
اس واقعے کے فوری بعد نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’میں اس دل آزاری پر معذرت چاہتا ہوں۔ یہ واقعہ ایک فرد کے ذاتی اقدامات کا نتیجہ تھا، نہ کہ ایک عسکری اتحاد کے طور پر نیٹو کی سوچ کا ترجمان کوئی اقدام۔‘‘
ساتھ ہی اسٹولٹن برگ نے اپنے بیان میں مزید کہا، ’’متعلقہ فرد کو ان مشقوں سے فوری طور پر ہٹا دیا گیا ہے اور اس کے اس اقدام کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے اگر کوئی تادیبی کارروائی کی جائے گی، تو یہ فیصلہ ناروے کے حکام کریں گے۔‘‘
برسلز میں نیٹو ممالک کے سربراہان کا اجلاس شروع
جرمنی میں ترک شہری محتاط رہیں، انقرہ کی ہدایت سے نیا تناؤ
نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے ترک حکومت سے معذرت کرتے ہوئے اپنا یہ بیان کینیڈا میں ہیلی فیکس انٹرنیشنل سکیورٹی فورم میں شرکت کے موقع پر دیا اور کہا، ’’ترکی نیٹو کے ایک رکن ملک کے طور پر انتہائی اہم ریاست ہے اور اس نے نیٹو کی رکن ریاستوں کی سلامتی کے لیے بہت اہم خدمات انجام دی ہیں۔‘‘
اسی دوران ناروے کے وزیر دفاع فرانک باکے ژینسن نے بھی اس واقعے کی وجہ سے اوسلو حکومت کی طرف سے معافی مانگ لی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ واقعہ ناروے کی سوچ یا پالیسیوں کا آئینہ دار نہیں اور میں اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال پر معذرت کا طلب گار ہوں۔‘‘