فورٹ ہڈ کے مرحومین کے لئے دعائیہ تقریب
11 نومبر 2009امریکی فوج کے ایک افسر کے ہاتھوں تیرہ فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے اس واقعے کی خاص بات یہ تھی کہ اس وجہ سے امریکہ میں اب یہ سوال بھی اٹھائے جانے لگے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی قوم کتنی محفوظ ہے۔ اس کا سبب یہ نہیں کہ یہ ہلاکتیں کسی دہشت گردی کا نتیجہ تھیں، بلکہ یہ کہ یہ ایک ایسے عربی نژاد امریکی فوجی افسر کے ہاتھوں ہوئیں، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی بیرون ملک تعیناتی کے امکانات پر سخت پریشان تھا۔
فورٹ ہُڈ کے امریکی فوجی اڈے پر ہونے والی تقریب میں قریب پندرہ ہزار امریکی فوجی بھی شریک ہوئے اور ہلاک ہونے والے فوجیوں کے اہل خانہ بھی۔ اس موقع پر صدر اوباما نے کہا کہ یہ وقت جنگ کا دور ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ تقریب ایسے امریکی فوجیوں کی یاد میں منعقد کی گئی، جو بیرون ملک کسی میدان جنگ میں نہیں، بلکہ اپنی ہی سرزمین پر ہلاک ہوئے۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جو ان افسوسناک ہلاکتوں کو اور بھی تکلیف دہ بنا دیتی ہے۔
بعد ازاں امریکی صدر نے اس تقریب کے شرکاء سے اپنے خطاب میں ہلاک ہونے والے تمام تیرہ فوجیوں کا نام لے کر ذکر کیا، اُن کی ذاتی زندگی کی اہم تفصیلات بیان کیں، اور ان میں سے ہر کسی کو انفرادی طور پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ فورٹ ہُڈ کے فوجی اڈے پر اس قاتلانہ حملے کو کوئی بھی عقیدہ درست قرار نہیں دے سکتا۔ امریکی صدر نے اپنے خطاب میں میجر ندال ملک حسن کے جرم کی کھل کر مذمت کی۔
اسی دوران امریکی خفیہ اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ میجر ندال ملک حسن کا تعلق مبینہ طور پر ایک ایسے شعلہ بیان انتہاپسند لیڈر سے تھا جو ان دنوں یمن مقیم ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے اس مسلمان مذہبی رہنما کا نام انور العلاقی بتایا ہے۔ العلاقی چند سال پہلے تک امریکی ریاست ورجینیا کے فالز چرچ نامی علاقے میں واقع ایک مسجد دارالحجرہ کے امام تھے۔
میجر ندال ملک حسن، جو فورٹ ہُڈ کے فوجی اڈے پر حملے میں خود بھی زخمی ہو گئے تھے، اب ہوش میں ہیں۔ انہوں نے ابھی تک تفتیشی ماہرین کے ساتھ کوئی گفتگو شروع نہیں کی۔ مختلف خبر ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق اس امر کا قوی امکان ہے کہ میجر ندال حسن کے خلاف امکاناً کورٹ مارشل کی شروعات فوجی عدالت جلد ہو سکتی ہیں۔
ٹیکساس میں فورٹ ہُڈ کے امریکی فوجی اڈے پر تیرہ ہلاکتوں کا واقعہ امریکی صدر اوباما کے لئے اس لئے بھی اپنے اندر کئی خطرات لئے ہوئے ہے، کہ باراک اوباما عنقریب ہی یہ فیصلہ بھی کرنے والے ہیں کہ آیا، افغانستان میں سلامتی کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورت حال میں بہتری کے لئے، افغانستان میں امریکی اور نیٹو کے فوجی دستوں کی اعلیٰ ترین کمان کی طرف سے کی گئی درخواست پر، امریکہ کو اپنے مزید کئی ہزار فوجی جلد ہی افغانستان بھیجنا چاہیئں۔
وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے مطابق باراک اوباما اس درخواست پر مسلسل غور کر رہے ہیں، اُن کے اپنے فوجی اور غیر فوجی مشیروں سے مشورے بھی جاری ہیں، اور اب صدر کے پاس افغانستان میں مزید فوجی دستے بھیجنے یا نہ بھیجنے کے حوالے سے جملہ امکانی فیصلے کم ہو کر صرف چار رہ گئے ہیں۔ باراک اوباما کو، جو آج بدھ کے روز اپنے کئی روزہ دورہء ایشیا پر روانہ ہونے والے ہیں، افغانستان امریکہ کے میں مزید فوجی دستوں کی ممکنہ تعیناتی سے متعلق کوئی بھی فیصلہ زیادہ سے زیادہ اگلے ہفتہ کے آخر تک کرنا ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عابد حسین