فوری طور پر عام انتخابات منعقد کروائے جائیں، عمران خان
14 اپریل 2022اس جلسے کے لیے پشاور سے باہر ایک بڑا سٹیج تیار کیا گیا تھا۔ اس جلسے میں ہزاروں پارٹی کارکنوں نے شرکت کی۔ اس جلسہء عام سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سمیت سابق صوبائی گورنر اور وفاقی وزرا نے خطاب کیا۔ عمران خان اس جلسے میں اپنا نیا بیانیہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ تب تک سڑکوں پر رہیں گے، جب تک حکومت نئے انتخابات کا انعقاد نہیں کرا دیتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب دیکھیں گے کہ کس کو الیکشن میں انڈے پڑیں گے۔
شہباز کرے پرواز: بہتری کے دعوے اور سیاسی انتقام کے الزامات
عمران خان کا سیاسی زوال، مسئلہ خارجہ پالیسی یا داخلہ
عمران خان نے جذباتی تقریر میں عدلیہ سے بھی سوال کیا کہ انہوں نے کون سا جرم کیا کہ رات کو عدالتیں لگائی گئیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو ’امپورٹڈ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسے کسی طور پر تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘
عمران خان کے اس تقریر کا زیادہ حصہ غیر ملکی سازش پر رہا مرکوز رہا، جس میں انہوں نے امریکا پر بھی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جنگ میں خیبر پختونخوا کے ہزاروں لوگوں نے قربانی دی۔
اس تقریر میں عمران خان نے سابق وزیراعظم نواز شریف، موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور سابق صدر آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات لگائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ، ’’آج اگر ہم نے یہ فیصلہ قبول کرلیا تو آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گے۔ ‘‘
ماہرین کا کیا کہنا تھا
تجزیہ نگار شمیم شاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس جلسے میں زیادہ تر لوگوں کی آمد کی وجہ پشاور کے چودہ ارکان اسمبلی اور ایک کے علاوہ پشاور سے منتخب ہونے والے تمام ارکان قومی اسمبلی ہیں۔‘‘
شمیم شاہد نے دعویٰ کیا کہ اس جلسے کے لیے صوبائی وسائل کا استعمال کیا گیا۔ ’’کچھ وقت تک خیبر پختونخوا کے لوگ بھی ان کا ساتھ دیں گے لیکن جب انہیں آہستہ آہستہ پی ٹی ائی کی حکومت کے دور میں ہونے والی کرپشن کا علم ہوگا، تو سب سے زیادہ خیبر پختونخوا کے عوام ان سے دور ہوں گے کیونکہ یہاں کے عوام جس تیز ی سے کسی کا ساتھ دیتے ہیں اسی تیزی کے ساتھ ان سے دور ہٹ جاتے ہیں۔
شمیم شاہد نے عمران خان کے دورحکومت کے وزیرخارجہ شوکت ترین کے ایک حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’وزیر خزانہ کا موقف آیا ہے کہ ان کے پاس کوئی معاشی منصوبہ نہیں تھا۔ اس طرح کی دیگر باتیں سامنے آنے کے بعد عوام آہستہ آہستہ ان سے دور ہوتے جائیں گے۔ ‘‘
تاہم سینیئر صحافی گوہر علی خان کے مطابق، ’’رمضان کے باوجود خیبر پختونخوا سے بڑی تعداد میں لوگ اس جلسے میں شریک ہوئے اور عمران خان کی تقریر کا انتظار کرتے نظر آئے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس میں شک نہیں کی پی ٹی آئی کے دور میں مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود جب بات پاکستان کی سالمیت کی بات آتی ہے تو یہاں کے لوگ دیگر مسائل اور باتوں سے ہٹ کر سیاسی قیادت کا ساتھ دیتے ہیں۔
سیاست دان کیا کہتے ہیں
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن اختیار ولی کے مطابق، ’’عمران خان کی تقریر کا خلاصہ یہی تھا کہ مجھے کیوں نکالا۔ ان کی چیخ و پکار بتا رہی ہے کہ وہ این آر او مانگ رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت کی نو سالہ کارکردگی پر بات کریں۔‘‘
اختیار ولی نے مزید کہا، ’’پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں کہاں ہیں؟ وہ ستر یونیورسٹیاں اور ایک ہزار کھیلوں کے میدان کہاں بنائے گیے ہیں۔ بی آر ٹی، مالم جبہ اور فارن فنڈنگ کیسز سے کیوں چھپ رہے ہیں؟‘‘
عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک کا کہنا تھا، ’’ دس سال سے پی ٹی آئی کی اس صوبے میں حکومت ہے لیکن یہاں بجلی،گیس کی لوڈ شیڈنگ، سب سے زیادہ ہے مرکز اور صوبے میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی یہ اپنا حق لینے میں ناکام رہے ہیں۔ صوبے میں ترقیاتی منصوبوں کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ چھوٹے منصوبوں کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔‘‘
تاہم پاکستان تحریک انصاف کے مقامی عہدیدار اور ضلعی اسمبلی کے سابق اسپیکر قاسم شاہ کا اس جلسے کے بارے میں کہنا تھا کہ ڈیڑہ لاکھ افراد نے اس جلسے میں شرکت کی۔ ’’یہ پشاور کا جلسہ ہے۔ پشاور کے عوام نے ہمیشہ سے عمران خان کا ساتھ دیا ہے اور اس بار بھی عوام کا جم غفیر اس جلسے میں شرکت کر رہا ہے۔ ہم نے تمام تیاریاں کی ہیں۔ سڑکوں پر نکلیں گے کشتیاں جلا دی ہیں۔‘‘
ماضی کی پاکستان تحریک انصاف
عمران خان کی سیاست کو سب سے زیادہ خیبر پختونخوامیں تقویت ملی۔ سال2013میں انہیں یہاں حکومت ملی اور اتحادیوں کو ساتھ لے کر پی ٹی آئی نے صوبے میں حکومت بنائی۔ قومی وطن پارٹی اور جماعت اسلامی کے ارکان کا ان کے ساتھ اتحاد رہا لیکن یہ اتحاد چل نہ پایا اور دھیرے دھیرے یہ اتحادی جماعتیں الگ ہوتی چلی گئیں۔ 2018 کے انتخابات میں پختونخوا سے قومی اور صوبائی اسمبلی میں تاہم تحریک انصاف کوبھاری اکثریت کی حمایت ملی۔ یوں تحریک انصاف نے نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ وفاق میں بھی حکومت قائم کی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے ایک پھر سے عوامی رابطہ مہم کی تحریک شروع کرنے کے لیے پشاور کا انتخاب کیا۔