180711 GB Abhöraffäre Polizei
18 جولائی 2011برطانیہ میں ٹیلیفون ہیکنگ اسکینڈل کی وجہ سے ہی گزشتہ روز نیوز آف دی ورلڈ کی سابق ایڈیٹر ربیکا بروکس کو گرفتار کیا گیا تاہم اب انہیں دوبارہ رہا بھی کیا جا چکا ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس تناظر میں پارلیمان کا ایک ہنگامی اجلاس بھی بلا لیا ہے۔ پولیس کے کردار پر ہونے والی تنقید کے بعد لندن کے پولیس کمشنر بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں۔
برطانیہ میں ڈیوڈ کیمرون کی حکومت فون ہیکنگ اسکینڈل کے اثرات سے اپنے آپ کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ برطانوی پولیس کے سب سے سینئر افسر کے استعفے کے بعد اس اسیکنڈل نے سیاسی حلقوں کو بھی پریشان کر دیا ہے۔
میٹروپولیٹن پولیس کمشنر سر پال اسٹیفنسن نے اپنے استعفے میں بتایا ہےکہ انہوں نے خود کوئی غلط کام سر انجام نہیں دیا۔ ’’میں یہاں ایک بیان دینے آیا ہوں۔ صحافت کی دنیا سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے اس تضحیک آمیز ٹیلیفون اسکینڈل کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا اور اس کا نشانہ بننے والے افراد کے بارے میں بھی میں لاعلم تھا۔ نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ یہ اسکینڈل اعلٰی سطح تک کیسے پہنچا‘‘۔
پولیس کمشنر اسٹیفنسن کونیوز آف دی ورلڈ کے ایگزیکٹو نِیل والِس کو اپنا مشیر بنانے پرسخت تنقید کا سامنا تھا۔ اس دوران آف دی ورلڈ کی سابق ایڈیٹر ربیکا بروکس کے وکیل اسٹیفن پارکنسن نے اپنی مؤکلہ کی گرفتاری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اسٹیفن پارکنسن کے بقول ربیکا بروکس بے قصور ہیں اور پولیس نے ان کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔
گزشتہ روز لندن پولیس نے فون ہیکنگ اسکینڈل میں ملوث ہونے کے شبے میں اس سابقہ ایڈیٹر کوگرفتار کیا تھا تاہم بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ اسٹیفن پارکنسن نے کہا کہ پولیس نے ربیکا بروکس سے کئی گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی۔ اس دوران پولیس نے ان پر کوئی الزام عائد نہیں کیا اور نہ ہی انہیں اس طرح کی کوئی دستاویزات دکھائی گئیں، جن سے ظاہر ہوتا ہو کہ وہ فون ہیکنگ اسکینڈل میں ملوث رہی ہیں۔
برطانوی حزب اختلاف کی جانب سے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پر بھی سیاسی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے اس معاملے پر بحث کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ اسی وجہ سے ڈیوڈ کیمرون نے اپنےجنوبی افریقہ کے آج سے شروع ہونے والے چار روزہ دورے کو مختصر کر کے دو روز کا کر دیا ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : مقبول ملک