فٹ بال لیگ: سعودی لڑکیوں کا خواب پورا
21 نومبر 2021عرب بادشاہت پر ایک عرصے سے قدامت پسندی، انسانی حقوق اور خاص طور سے خواتین کےحقوق کی پامالی کے سلسلے میں بہت زیادہ تنقید کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب میں خواتین کو جہاں بنیادی حقوق اور آزادی حاصل نہیں وہاں خواتین کو اسپورٹس میں حصہ لینے کی اجازت ملنا ''جوئے شیر‘‘ لانے کے مترادف سمجھا جاتا رہا ہے۔
ایسے میں فٹ بال جیسے کھیل میں خواتین کو بھی اپنا شوق پورا کرنے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کی آزادی حاصل کرنے میں بھی بہت طویل وقت لگا۔ خواتین کے فٹ بال گیم میں حصہ لینے اور اس کی تربیت وغیرہ حاصل کرنے پر عشروں سے لگی پابندی چند سال پہلے اُٹھائی گئی۔ اب سعودی عرب نہ صرف خود اپنی ایک خواتین فٹ بالرز کی قومی ٹیم تشکیل دے رہا ہے بلکہ اسے بین الاقوامی معیار کے مطابق تربیت دے کر بڑے عالمی فٹ بال ایونٹس میں شرکت کے قابل بنانا چاہتا ہے۔
سعودی عرب ميں ہتھيار چلانے کی خاتون ٹرينر اولمپک ميں حصہ لينے کی خواہشمند
چند حلقوں کی تنقید
اس انتہائی قدامت پسند ملک کو انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے انتہائی خراب ریکارڈ کے سبب عالمی سطح پر بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اب جبکہ عرب بادشاہت نے خواتین کو فٹ بال جیسے عالمی کھیل میں آگے لانے کا فیصلہ کیا ہے، کچھ حلقے اس اقدام کو سعودی عرب کی طرف سے اپنے انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ اور اس کی ساکھ پر لگے دھبے کو مٹانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ سعودی عرب پر مغرب کی طرف سے غیر معمولی دباؤ اور تنقید کی ایک بڑی وجہ سعودی خواتین ایکٹیوسٹس یا اپنے حقوق کے لیے سرگرم خواتین کو جیل بھیجنے جیسے اقدامات بنتے رہے ہیں۔
سعودی عرب: ڈرائیونگ پر پابندی کے خلاف احتجاج بذریعہ فیشن
سعودی فٹ بال فیڈریشن کا اعلان
سعودی عرب میں یوں تو گزشتہ چند سالوں کے اندر کئی اصلاحاتی پروگرام متعارف کرائے گئے ہیں لیکن اس سلسلے میں رواں ماہ سعودی فٹ بال فیڈریشن کی طرف سے خواتین فٹ بال لیگ کے قیام کا اعلان تازہ ترین اور اہم ترین قدم سمجھا جا رہا ہے۔ اس اعلان میں کہا گیا کہ خواتین فٹ بالرز کی 16 ٹیمیں 'ویمنز سوکر لیگ‘ میں شامل ہوں گی۔ یہ ٹیمیں ریاض، جدہ اور دمام میں ہونے والے گیمز مں حصہ لیں گی۔ سعودی عرب کی خواتین کو فٹ بالر بننے کی اجازت ملنے سے بہت سی خواتین انتہائی خوشی کا اظہار کر رہی ہیں۔ بہت ہی جوش و خروش کا مظاہرے کرنے والی فراح جعفری نے اپنی دلی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ امید کر رہی ہیں کہ وہ انگلینڈ کی ٹاپ کی ٹیم میں کھیلنے کے ساتھ ساتھ ورلڈ کپ کے سب سے بڑے فٹ بال اسٹیج پر اپنے ملک سعودی عرب کی نمائندگی کریں گی۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''اپنے فٹ بال کے سفر کے آغاز میں مجھے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، تمام لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا۔‘‘ جرسی میں ملبوس اور ایک پونی ٹیل بنائے فراح جعفری کا مزید کہنا تھا، ''میرے گھر والے اور دوست میری بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے۔‘‘
سعودی گیمز میں خواتین ایتھلیٹس بھی حصہ لیں گی
فٹ بال کی شوقین بہت سی دیگر سعودی لڑکیوں کی طرح فرح بھی ماضی میں فٹ بال کھیلنے سے قاصر تھیں۔ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ یا اسکول میں دوستوں کے ساتھ فٹ بال کیھلا کرتی تھیں۔ فراح نے بتایا کہ اس کے پاس صرف ایک متبادل شوق تھا اور وہ تھا ٹیلی وژن پر گیمز واچ کرنا۔
سعودی خواتین فٹ بال ٹیم
حکام کے مطابق فراح جعفری ان30 کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنہیں سعودی فٹ بال اسکواڈ کا حصہ بننے کے لیے 400 امیدواروں میں سے منتخب کیا گیا ہے۔ فرح نے کہا، ''میں اُس دن کا خواب دیکھ رہی ہوں جس روز میں ورلڈ کپ میں اپنے ملک کی نمائندگی کر سکوں گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ انگلش ٹیم مانچسٹر سٹی کے لیے بھی کھیلنے کی امید رکھتی ہیں۔سعودی عرب: غیر شادی شدہ جوڑوں کو ایک ساتھ قیام کی اجازت
ریاض کے پرنس فیصل بن فہد اسٹیڈیم میں تربیتی سیشن کے دوران قومی ٹیم میں شامل خواتین پرجوش انداز میں میدان میں اترتی ہیں۔ ان میں سے کچھ بغیر نقاب یا برقعے کے لیکن اپنی شارٹس کے نیچے لمبے ٹریک سوٹ پہنتی ہیں۔ حکام نے ابھی تک سعودی خواتین کےلیے کھیلوں کے لباس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے جبکہ ماضی میں ان پر سعودی عرب کی مذہبی پولیس کی طرف سے کڑی نظر رکھی جاتی تھی اور ان کے لیے سخت ''ڈرس کوڈ‘‘ نافذ تھا۔
ک م/ا ب ا ) اے ایف پی(