فیس بک پوسٹ کے سبب قتل گجرات میں، عالم دین دہلی سے گرفتار
31 جنوری 2022بھارتی ریاست گجرات میں انسداد دہشت گردی کے خصوصی دستے ایک قتل کے سلسلے میں اب تک دو مسلمان علماء سمیت چھ افراد کو گرفتار کر چکے ہیں۔ ریاستی دارالحکومت احمد آباد میں چند روز پہلے ایک ہندو نوجوان کو گولی مار ہلاک کر دیا گيا تھا اور سکیورٹی حکام کا الزام ہے کہ اس میں مسلم علماء ملوث ہیں۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ ملزمان نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ایک مبینہ طور پر قابل اعتراض فیس بک پوسٹ سے ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے تھے، اس لیے ایک شخص کشن بولیا کو قتل کر دیا گيا۔ پہلے گجرات سے ایک مقامی عالم دین کو حراست میں لیا گيا تھا پھر گزشتہ روز دہلی سے معروف عالم دین قمر غنی عثمانی کو بھی حراست میں لے لیا گيا۔
معاملہ ہے کیا؟
ابتدائی طور پر پولیس حکام نے بتایا تھا کہ کشن بولیا نامی شخص کو موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے 25 جنوری کو ایک فیس بک پوسٹ کے بدلے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ یہ پوسٹ مقتول نے چھ جنوری کو شیئر کی تھی۔ قتل کا یہ واقعہ احمد آباد کے مضافاتی علاقے میں پیش آيا تھا۔
اطلاعات کے مطابق مسلم برادری کے کچھ افراد نے اس متنازعہ پوسٹ کے خلاف پولیس کو شکایت بھی درج کرائی تھی، جس سے ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ لیکن پولیس کے مطابق بعد میں 25 سالہ شبیر چوپڑا اور 27 سالہ امتیاز پٹھان نے مبینہ طور پر کشن کو قتل کر دیا۔
پولیس نے اس سلسلے میں پہلے دونوں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا اور پھر جمال پور سے تعلق رکھنے والے 51 سالہ عالم دین مولانا محمد ایوب جواراوالا کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد پولیس نے یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کے ذمےد ار حکام کے حوالے کر دیا، جنہوں نے دہلی سے مولانا قمر غنی عثمانی کو بھی حراست میں لے لیا۔
الزامات کیا ہیں؟
سکیورٹی حکام کا دعویٰ ہے کہ جس پستول سے قتل کیا گیا، وہ مولانا محمد ایوب نے ہی شبیر اور پٹھان کو فراہم کیا تھا۔ اینٹی ٹیررزم اسکواڈ (اے ٹی ایس) کا کہنا ہے کہ قاتل سوشل میڈیا کے ذریعے مولانا عثمانی سے رابطے میں رہتے تھے اور انہوں نے ہی مبینہ طور پر انہیں اس قتل پر اکسایا تھا۔
اے ٹی ایس نے ایک بیان میں کہا ہے، ’’گرفتار کیے گئے مولانا قمر غنی عثمانی ایک سماجی تنظیم چلاتے تھے اور کمیونٹی کے نوجوانوں کو توہین مذہب یا پیغمبر اسلام کی تضحیک کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے پر اکساتے تھے۔‘‘
مولانا قمر غنی عثمانی مذہبی اداروں کے ساتھ ساتھ فلاحی کام بھی کرتے ہیں اور تحفظ ناموس رسالت کے سلسلے میں بھی متحرک ہیں۔ دو ماہ قبل جب بھارتی ریاست تری پورہ میں مسلم مخالف فسادات بھڑک اٹھے تھے، تو وہاں بھی مساجد اور مدارس میں ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے وہ دورے پر گئے تھے۔
اس وقت بھی بی جے پی کی حکومت نے انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تھا اور حال ہی میں رہا کیے گئے تھے۔ حکام نے اس وقت بھی ان پر اشتعال انگیز بیانات کا الزام عائد کیا تھا۔ احمد آباد کی ایک مقامی صحافی کے مطابق بعض مذہبی امور کے سلسلے میں وہ کچھ روز قبل ہی احمد آباد بھی آئے تھے۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے اس کیس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ’’مقتول شخص اکثر سوشل میڈیا پر اسلام اور خاص طور پر پیغمبر اسلام سے متعلق منفی باتیں کیا کرتے تھے۔ ان کے خلاف کئی بار شکایت بھی کی گئی تھی۔ اب حکام کا کہنا ہے کہ مقامی نوجوانوں نے ان کی فیس بک پوسٹ سے ناراض ہو کر انہیں قتل کر دیا۔‘‘
مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کی کوشش
اس مسئلے پر جب مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سابق ترجمان اور ایک سیاسی جماعت کے رہنما قاسم رسول الیاس سے ڈوئچے ویلے کی طرف سے سوال کیا گيا، تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت آئندہ اسمبلی انتخابات کے حوالے سے بی جے پی کی حالت اچھی نہیں، اسی لیے وہ کسی نہ کسی طرح سیاسی مفاد کے لیے ہندو مسلم کارڈ کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
قاسم رسول الیاس نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ’’دو علماء کی گرفتاری سے بی جے پی خاص طور پر یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں بھی مسلم مذہبی شخصیات اشتعال دلا کر قتل و غارت گری کروانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ سب الزامات جعلی ہیں، سب بری بھی ہو جائیں گے تاہم وہ طویل عرصہ جیل میں رہنے کے بعد ہی بری ہو پائیں گے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’گجرات میں جس نوعیت کے مسلم کش فسادات ہوئے تھے، ان کے بعد مسلمان اس طرح کی حرکت کریں گےکیا؟ ممکن ہی نہیں ہے۔ اب وہاں مسلمان پھر سے کھڑے ہونے لگے ہیں۔ تو اس طرح کی کارروائیاں مسلم برادری کی حوصلہ شکنی کے لیے ہیں۔ وہ مسلسل ایسی کوششیں کرتے ہیں کہ اخلاقی طور پر مسلمانوں کے حوصلے پست کیے جائیں۔‘‘