فیصلہ اسرائیل اور فلسطین کو ہی کرنا ہے، اولانڈ
3 جون 2016اس موقع پر فرانسیسی سربراہ مملکت کا کہنا تھا کہ مشرق وسطٰی کے مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور سامنے آنا چاہیے۔ ان کے بقول تاہم اس سلسلے میں آخری فیصلہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے ہی ہاتھوں میں ہے اور انہیں اس مقصد کے لیے بڑے اور اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔ فرانسوا اولانڈ کے مطابق، ’’ کسی ممنکہ دیرپا حل کی شرائط طے کرنے کے حوالے سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ پورے خطے کے بارے میں سوچنا ہو گا۔‘‘
فرانس کی دعوت پر تقریباً تیس ملکوں اور تنظیموں کے نمائندے پیرس میں اس موضوع پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں کہ کیسے اس تنازعے کے فریقین کو پھر سے مذاکرات کی میز پر واپس لایا جا سکتا ہے۔ اس کانفرنس میں عالمی سلامتی کونسل میں ویٹو کی طاقت رکھنے والے پانچ ممالک کے سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مُون، یورپی یونین اورعرب لیگ کے نمائندے بھی شریک ہیں۔ پیرس میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی موجود ہیں، لیکن واشنگٹن نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ اس اجلاس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکے گا۔
اسرائیلی اور فلسطینی یہاں موجود نہیں ہوں گے کیونکہ موجودہ حالات میں ان دونوں کے درمیان مکالمت کو ناممکن قرار دیا جا رہا ہے۔ فرانس اس سال موسمِ خزاں میں ایک اور ایسی ہی کانفرنس کے انعقاد کی امید کر رہا ہے، جس میں غالباً اسرائیلی اور فلسطینی بھی شریک ہوں گے۔ فرانس کے وزیر خارجہ ژان مارک کے بقول،’’موجودہ صورتحال میں سب کچھ رکا ہوا ہے، براہ راست بات چیت کا طریقہ کام نہیں کر رہا۔ ہم اسرائیل یا فلسطین کا کردار تو ادا نہیں کرنا چاہتے لیکن ہم ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
مشرقی وسطٰی امن تنازعے کو حل کرنے کے سلسلے میں روایتی طور پر امریکا ثالث کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ تاہم واشنگٹن حکام بھی فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب نہ ہو سکے اور اوباما انتظامیہ کی کوششیں اپریل 2014ء میں دم توڑ گئیں۔ اس اجلاس سے قبل ایک امریکی سفارت کار نے کہا تھا،’’ ہم کسی خاص تجویز کے ساتھ پیرس اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے۔‘‘ فلسطین کے مذاکرات کار صائب عیرقات کے مطابق فرانس کی کوششیں اس تنازعے کے خاتمے کے تناظر میں ایک امید کی کرن ہیں۔ تاہم دوسری جانب اسرائیل نے فرانسیسی پیش رفت پر غصے کا اظہار کیا ہے۔