فیض آباد آپریشن بند، اسلام آباد میں فوج طلب کر لی گئی
25 نومبر 2017تفصیلات کے مطابق وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے امن و امان کی بحالی کے لیے تا حکم ثانی فوج کو طلب کیا تھا۔ اس وقت اسلام آباد کی سڑکوں پر فوج کے دستوں کی نقل و حرکت دکھائی دے رہی ہے۔
اسلام آباد میں پولیس اور مظاہرین کے مابین جھڑپوں میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور دو سو سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ ان زخمیوں میں 64 پولیس اہلکار اور 53 ایف سی اہلکار بھی شامل ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گولیاں لگنے سے ہلاک ہونے والے پانچ شہریوں کو بے نظیر بھٹو ہسپتال جبکہ ایک کو ہولی فیملی ہسپتال لایا گیا۔
پاکستان کے سرکاری ٹیلی وژن پی ٹی وی نے رات گئے بتایا ہے کہ فیض آباد آپریشن روک دیا گیا ہے اور حکومت کی کوشش ہے کہ موجودہ صورتحال کا حل بات چیت سے نکالا جائے۔ قبل ازیں ہفتے کی شام پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے بتایا کہ فیض آباد آپریشن عدالت کے حکم پر کیا گیا۔ ان کے مطابق حکومت دھرنے والوں سے مذاکرات کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ دھرنے والوں میں تربیت یافتہ افراد شامل تھے اور انہوں نے سی سی ٹی وی کیمروں کی تاریں کاٹ ڈالی تھیں۔
فیض آباد میں دھرنے والوں کو ہٹانے کے لئے کیے جانے والے آپریشن کے بعد صورتحال ابھی تک کشیدہ ہے، ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں جب کہ لاہور اور کراچی میں رینجرز کا سڑکوں پر مارچ جاری ہے۔
فیصل آباد، شیخوپورہ، جہلم، قصور،گجرات، اوکاڑہ، لیہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سمیت پنجاب کے کئی چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ ادھر لاہور میں مال روڈ، شاہدرہ، جوہر ٹاون، غازی روڈ، ٹھوکر نیاز بیگ، بابو صابو اور والٹن سمیت کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
مشتعل احتجاجی مظاہرین کی طرف سے مسلم لیگی رہنماوں رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد خان اور وفاقی وزیر زاہد حامد کے گھروں اور ڈیروں پر حملے ہوئے ہیں۔ دریں اثناء موٹر وے مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے اور ہزاروں مسافر پچھلے کئی گھنٹوں سے راستوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ملک میں ایک درجن سے زائد گاڑیوں کو نذر آتش کیا جا چکا ہے۔
پاکستان کے کئی علاقوں میں بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولتیں بھی پابندیوں کی زد میں ہیں جبکہ فیس بک، ٹویٹر اور یو ٹیوب سمیت سوشل میڈیا کی متعدد ویب سائٹس بند کر دی گئی ہیں۔ دوسری جانب پیمرا کے حکم کے بعد مختلف شہروں میں نیوز چینلز کی نشریات بھی معطل کر دی گئی ہیں۔
اس سے پہلے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ٹیلی فون کیا اور تجویز دی کہ فیض آباد دھرنے سے متعلق دونوں جانب سے تشدد سے اجتناب کیا جائے اور اس معاملے کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔
پاکستان کی متعدد سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے پولیس آپریشن کی مذمت کی ہے۔ ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے کہا ہے کہ قانون کی بالادستی کے لیے فیض آباد دھرنا مظاہرین کے خلاف آپریشن ہونا تھا لیکن ساری جماعتوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔
پاکستان مسلم لیگ کے صدر و سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین اور سینئر مرکزی رہنما و سابق نائب وزیراعظم چودھری پرویزالہٰی نے کہا ہے کہ احتجاجی مظاہرین پر بدترین تشدد کا مقصد نواز شریف کو بچانا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’حکومت کی اپنی قائم کردہ راجہ ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ کو اس لیے پبلک نہیں کیا جا رہا تاکہ اس میں ختم نبوت پر ایمان کے حلف نامے میں تبدیلی کے اصل ذمہ دار قرار دیے گئے نوازشریف اور وفاقی وزراء کے نام سامنے نہ آ سکیں۔‘‘ میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ٹی وی چینل آف کرنا اور میڈیا پر پابندیاں مسئلے کا حل نہیں، حقائق پر پردہ ڈالنے سے حالات مزید خراب ہوں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے اس صورتحال کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہوئے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے صحافیوں کو لاہور میں بتایا، ’’حکومت اپنے ہی حمایت یافتہ دھرنے پر کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گئی ہے، حالات حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں، ملک کسی سانحہ کا متحمل نہیں ہو سکتا، فوری نئے انتخابات کرائے جائیں، معاملہ پیر کے روز اسمبلی اجلاس میں اٹھائیں گے۔‘‘
تحریک لبیک یارسول اللہ کے فیض آباد دھرنے کے خلاف حکومت کے آپریشن کی مذمت کرنے والوں میں ملی یکجہتی کونسل اور جماعت اسلامی بھی شامل ہیں جبکہ پنجاب حکومت کے ترجمان نے اس معاملے پر اے پی سی بلانے کی تجویز پیش کی ہے۔
ہفتے کے روز ہونے والی پرتشدد کارروائیوں میں پاکستانی صحافیوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کی تنظیموں نے نیوز چینلز کی بندش کی مذمت کی ہے۔ پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت صحافیوں اور میڈیا ہاوسز کے تحفظ کو یقینی بنائے۔