فیض حمید کی گرفتاری عمران خان کے لیے کتنا بڑا خطرہ؟
5 ستمبر 2024پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان سن 2022 میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ اختلافات کے بعد سے ملک کے سب سے طاقتور ادارے، فوج کے سامنے کھڑے ہیں۔ تب انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ عمران خان کے بقول ان کے خلاف یہ تحریک جرنیلوں نے منظم کی تھی جبکہ فوج ابھی تک اس الزام کی تردید کر رہی ہے۔
عمران خان سابق جرنیلوں اور موجودہ فوجی قیادت کے خلاف کھل کر سامنے آئے ہیں، جس کی وجہ سے اس جنوبی ایشیائی ملک میں کئی دہائیوں کا بدترین سیاسی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ 71 سالہ سابق کرکٹ اسٹار کے پیروکاروں کی تعداد بہت بڑی ہے جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خان کے خلاف کسی نئی فوجی کارروائی کے نتیجے میں بدامنی پھیل سکتی ہے۔ قبل ازیں خان کے حامیوں نے گزشتہ سال نو مئی کو ان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں فوجی تنصیبات میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ یہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں فوج کی طاقت کے لیے سب سے سنگین چیلنج تھا۔
عمران خان کے خلاف مزید سنگین الزامات؟
مبینہ طور پر تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں عمران خان کے خلاف ایک سول عدالت میں مقدمہ زیر سماعت ہے جبکہ انہوں نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ اب سرکاری حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خان کے سابق اتحادی اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد انہیں غداری اور بغاوت کے مزید سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
غداری اور بغاوت کا مقدمہ ممکنہ طور پر فوجی عدالت کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے جبکہ ایسے الزامات میں سزائے موت بھی سنائی جا سکتی ہے۔ مصنف اور دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ فیض حمید کی گرفتاری کو ایک''سیاسی بم‘‘ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں، ''میرے خیال میں اس گرفتاری کا استعمال فیض حمید پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا جائے گا۔ ایسی معلومات فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا، جس سے ثابت ہوتا ہو کہ خان نو مئی کے تشدد میں ملوث تھے، جسے موجودہ آرمی چیف بغاوت اور غداری کے فعل کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘‘
سرکاری حکام بارہا یہ الزام عائد کر چکے ہیں کہ فیض حمید نے عمران خان کے ساتھ مل کر نو مئی کے فسادات کی منصوبہ بندی کی تھی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ ماہ جیو ٹی وی کو بتایا تھا کہ عمران خان نے افرادی قوت فراہم کی جبکہ فیض حمید ''سازش کا ماسٹر مائنڈ‘‘ تھا۔ فوج نے اس تناظر میں ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا تاہم موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے مئی میں کہا تھا کہ ''ہماری تاریخ کے اس سیاہ باب کے منصوبہ سازوں اور معماروں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ یا ڈیل نہیں ہو سکتی۔‘‘ لیکن انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا تھا۔
یہ ایک ڈرامہ ہے، عمران خان
عمران خان بھی کہتے ہیں کہفیض حمید کی گرفتاری کا مقصد بالآخر انہیں نشانہ بنانا ہے کیونکہ ان کے خلاف دیگر مقدمات ختم ہو رہے تھے۔ جیل میں حال ہی میں ہونے والی سماعت کے دوران ان کے وکیل نعیم پنجوتہ نے ان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا، ''یہ ایک ڈرامہ ہے تاکہ مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلایا جائے۔‘‘
فوج کا کہنا ہے کہ فیض حمید کو 2022 کی ریٹائرمنٹ کے بعد بدعنوانی، سروس میں اختیارات کے غلط استعمال اور آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزامات میں بند کمرے کے کورٹ مارشل کا سامنا ہے۔ وہ زیر حراست ہیں اور تبصرے کے لیے ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ ان پر عائد کیے گئے الزامات کی سزا 14 سال تک قید ہے۔
فوج نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اس نے فیض حمید سے منسلک تین دیگر ریٹائرڈ افسران کو بھی گرفتار کر لیا ہے اور یہ کہ وہ کئی دوسرے افراد سے بھی ''سیاسی مفادات کے لیے ملی بھگت سے عدم استحکام کو ہوا دینے‘‘ کی تحقیقات کر رہی ہے۔
عمران خان متعدد اہم مقدمات میں رہائی پا چکے ہیں جبکہ متعدد جج یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ انہیں فوج کی جانب سے 'اپنی مرضی کے فیصلوں کے لیے‘‘ دباؤ کا سامنا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج ججوں پر دباؤ ڈالنے کی تردید کرتی ہے لیکن ان الزامات نے دونوں اداروں کو آپس میں لڑا دیا ہے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں سینئر فیلو حسین حقانی کہتے ہیں کہ یہ فوج کے اعلیٰ افسران کے مفاد میں ہو گا کہ فوجی قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے کیونکہ اس سے خان کی حمایت میں ''کسی بھی عدالتی مداخلت کو روکا جا سکے گا۔‘‘
فوجی ٹرائلز میں میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور ثبوتوں کی تفصیلات کے بغیر فوج کے مختصر بیانات میں فیصلے کا اعلان کیا جاتا ہے۔
واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے ساؤتھ ایشیا سینٹر کے فیلو شجاع نواز کہتے ہیں، ''اپنی فطرت کے مطابق فوجی عدالتیں خفیہ ہوتی ہیں اور ان کا طریقہ کار عجیب ہوتا ہے۔‘‘
شجاع نواز کے مطابق فیض حمید کی گرفتاری کو فی الحال خان کے خلاف الزامات سے جوڑنا قبل از وقت اور قیاس آرائی پر مبنی‘‘ ہو گا لیکن ان کے مطابق نو مئی کے تشدد سے منسلک سابقہ ٹرائلز میں شفافیت کا فقدان تھا، جو کہ تشویش ناک بات ہے۔
خان کی کابینہ کے ایک سابق وزیر فواد چوہدری کے مطابق خان کے فوجی ٹرائل سے مسائل پیدا ہوں گے، ''اسے مغرب اور واشنگٹن میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا۔ یہ وہ قیمت ہے، جو وہ (فوج) برداشت نہیں کر سکتی۔‘‘
لیکن صدیقہ، حقانی اور دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں فوج اپنی ایک کوشش کر کے یہ ظاہر کر رہی ہے کہ وہ خان کو کوئی جگہ فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، حالانکہ جیل میں ہونے کے باوجود اس سال کے شروع میں ہونے والے قومی انتخابات میں تحریک انصاف نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔
ایک سیاسی تجزیہ کار اور مصنف یوسف نظر کہتے ہیں، ''عمران خان کا فوجی عدالت میں ٹرائل فوج کی قیادت کی جانب سے خان کو سیاسی منظر نامے سے ختم کرنے کے عزم کا اشارہ ہو گا، چاہے کتنی ہی قیمت کیوں نہ ہو۔‘‘
ا ا/ا ب ا (روئٹرز)