فیکٹ چیک: موسمیاتی شدت میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا کردار کیا؟
4 ستمبر 2022
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر تحقیق کرنے والے سائنس دان سیلابوں، خشک سالی اور جنگلاتی آتشزدگی کے بار بار پیش آنے والے واقعات کی ماڈلنگ کے ذریعے یہ جائزہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا عالمی درجہ حرارت بھی موسمیاتی شدت کے سبب پیدا ہونے والے بحرانوں اور ناگہانی آفات میں اہم کردار ادا کرتا ہے؟ ڈوئچے ویلے نے اس حوالے سے معاملات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
جنوبی ایشیا کے بائیس کروڑ سے زائد کی آبادی والے ملک پاکستان میں جہاں ایک طرف شدید گرمی کی لہروں نے فصلوں کو مرجھا دیا، وہیں پر اسی ملک میں تباہ کن دریائی سیلاب اب تک ایک ہزار سے زائد افراد کو لقمہ اجل بنا چکے ہیں جبکہ لاکھوں شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔
پاکستان کی موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ امور کی وزیر شیری رحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے سیلاب زدہ علاقوں کا جائزہ لیا۔ زیادہ تر علاقے ایک 'چھوٹے سمندر‘ کی طرح نظر آ رہے تھے کیونکہ اس سال کے شروع میں ہی درجہ حرارت میں اضافے اور پھر کئی ہفتوں کی مسلسل بارشوں نے یہ صورت حال پیدا کر دی۔‘‘
شیری رحمان کے بقول، ''یہ ایک تباہ کن موسمیاتی تبدیلی ہے، اس بارے میں میری سوچ بالکل واضح ہے۔‘‘
کلائمیٹ چینج، غریب ممالک کی عورتوں کو بہت کچھ سہنا پڑا ہے
قدرتی ایندھن کو جلا کر کرہ ارض کو گرم کرنا بڑے پیمانے پر شدید موسم کو بار بار شدید تر بنا رہا ہے۔ سائنسدان برسوں سے اس بارے میں خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کو فوسل فیول سے گرم کرنے کا عمل کرہ ارض پر موسموں میں زیادہ سے زیادہ شدت پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ سائنسدان ایک عرصے سے ان خطرات کی نشان دہی کر رہے تھے۔ سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے موجودہ ہلاکت خیز سیلاب یا اس سال موسم گرما میں یورپ کو شدید خشک سالی سے دوچار کر دینے والی گرمی کی لہروں میں موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل دخل کتنا ہے؟
مثال کے طور پر بڑھتے ہوئے عالمی اوسط درجہ حرارت اور ایک طوفان کے درمیان براہ راست ربط کو وجہ کے طور پر مان لینا اور اسے ثابت کرنا بہت مشکل ہے اور یہ ایک ارتقا پذیر سائنسی معاملہ ہے۔
رائل نیدرلینڈز میٹیورولوجیکل انسٹیٹیوٹ (KNMI) کے آب و ہوا پر تحقیق کرنے والے ماہر سوکژے فلپ کہتے ہیں، ''انتہائی نوعیت کا موسم ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔ تاہم موسمیاتی تبدیلی شدید یا انتہائی موسمی حالات و واقعات کے امکانات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔‘‘ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجوہات کے تعین پر ہی فلپ اپنی سائنسی ریسرچ کر رہے ہیں، جو (WWA) یعنی 'ورلڈ ویدر اٹریبیوشن اینیشی ایٹیو‘ میں ایک بین الاقوامی تحقیقی ٹیم کے ساتھ کام کرتے ہیں اور یہ اور ان کی ٹیم عالمی موسمیاتی واقعات کے موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ حقیقی تعلق پر ہی ریسرچ اور اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ماحولیاتی بحران، پاکستان اپنی ’بقاء کے مسئلے‘ سے کیسے نمٹ رہا ہے؟
گلوبل وارمنگ سیلابوں اور گرمی کی لہروں کا سبب بنتی ہے؟
موسم کی خرابی کی کبھی بھی کوئی ایک مخصوص وجہ نہیں ہوتی۔ قدرتی عوامل کے ساتھ ساتھ انسانوں کے پیدا کردہ مسائل بھی اس کا سبب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی اور ہرے بھرے علاقوں کو ہموار کر کے کنکریٹ اور تارکول بجھا دینے جیسے عوامل شدید بارشوں کے سیلاب میں تبدیل ہوجانے کا سبب بنتے ہیں کیونکہ جنگلات اور ہریالی وغیرہ بارش کے پانی کو جذب کرتے ہیں جبکہ ان کی جگہ کنکریٹ کی بنی سڑکیں سیلابی صورت حال کو خراب تر کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔
'کلائمیٹ چینج‘ یا ماحولیاتی تبدیلی بھی ایک انسانی عنصر ہے، یقیناً، لیکن یہ کبھی بھی موسم کی تباہی کا واحد محرک نہیں ہو سکتا۔ لندن کے امپیریل کالج سے تعلق رکھنے والی جرمن ماہر موسمیات اور ڈبلیو ڈبلیو اے کی ریسرچ ٹیم کی بانی فریڈیرکے اوٹو کا کہنا ہے کہ اس کے اثر کا انحصار زیر بحث موسمی رجحان پر ہوتا ہے اور ہر واقعے میں یہ مختلف شدت کے ساتھ اثر انداز ہوتا ہے۔
اوٹو نے مزید کہا، ''کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے موسمیاتی تبدیلی ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن زیادہ تر دیگر موسمیاتی خرابیاں جیسے کہ شدید بارش یا خشک سالی وغیرہ میں یہ نسبتاً چھوٹا عنصر ہوتا ہے۔‘‘ WWA کے تجزیوں کے مطابق عالمی درجہ حرارت کے بغیر برطانیہ میں حالیہ ریکارڈ درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ (104 فارن ہائیٹ) یا جیسا کہ 2021ء میں شمالی امریکہ میں موسم گرما کی شدید لہر کے دوران دیکھنے میں آیا تھا، تقریباً ناممکن ہی ہوتا۔
اس ادارے کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں نے بھارت اور پاکستان میں اس سال 30 گنا زیادہ گرمی کی ہلاکت خیز لہروں کو ممکن بنایا۔
دہلی میں پہلی بار درجہ حرارت پچاس سینٹی گریڈ کے قریب ریکارڈ کیا گیا
فریڈیریکے اوٹو کے بقول، ''گرمی کی لہروں کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی واقعی ایک گیم چینجر ہے۔‘‘
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہر جگہ ایک سے؟
رائل نیدرلینڈز میٹیورولوجیکل انسٹیٹیوٹ کے ماہر سوکژے فلپ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی الگ الگ خطوں کے حساب سے مختلف ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،''ایک طرح کے شدید موسم کے شکار خطوں میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات مختلف علاقوں میں مختلف ہو سکتے ہیں۔‘‘ مثال کے طور پر مغربی جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں آہر کی وادی اور بیلجیم میں 2021 ء میں آنے والے سیلاب کا مقابلہ اپریل 2022 ء میں جنوبی افریقی صوبے کووا زولو ناتال میں آنے والے سیلاب سے کیا جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ افریقہ کے اس علاقے میں سیلاب کے نتیجے میں 425 افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہوگئے تھے جبکہ جرمنی کی آہر وادی میں شدید بارشوں سے آنے والے سیلاب نے 220 افراد کو نگل لیا تھا۔ اس علاقے میں شدید بارشیں گزشتہ 500 سال میں ہونے والی اپنی نوعیت کی اولین شدید ترین بارشیں تھیں۔ ڈبلیو ڈبلیو اے کے تجزیے کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ ایلپس اور بحیرہ شمالی کے درمیان یکساں سائز کے علاقے میں قریب پانچ سو سال بعد عالمی اوسط درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں اس طرح کے انتہائی حالات دیکھنے میں آئے۔
ک م / م م (بیاٹریس کرسٹوفارو، ژان والٹر)